انتہا پسندی کے خلاف جنگ کوئی آسان کام نہیں لیکن ریاستی عزم کی کمی اس کو مزید پیچیدہ اور چیلنجنگ بنا دیتی ہے۔ انتہاپسندی کے خلاف کھڑے رہنے کے عزم کو آئین پاکستان سماجی اور نظریاتی اساس سے تقویت حاصل ہونی چاہیے۔ محض بیانیہ اور لفاظی یا پھر وزیر اعظم عمران کا یہ کہنا کہ حکومتی رٹ ہر قیمت پر قائم کی جائے گی کے اعلان سے شدت پسندی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی بلکہ اس کے لیے ریاست کو سماجی ڈھانچہ پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ حکومت کی طرف سے انتہا پسندی کے مقابلہ کے لیے تشکیل دی جانے والی حالیہ پالیسی میں مذہبی حوالے سے اہم سوالات کے حل تلاش کرنے پر زور دیا گیا ہے جو پاکستان کی شناخت کا بنیادی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس پالیسی میں ریاست نے مذہب اور قومی شناخت کے مختلف بیانیوں کا انتظام کیا ہے جن کا سہارہ لے کر مختلف مذہبی گروہ ماضی میں اس بیانیہ کو عوام میں اثرورسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ریاست اس بات پر مکمل یقین رکھتی ہے کہ مذہب قوم کو متحد رکھنے کے علاوہ ایک اجتماعی معاشرہ کے قیام کی بھی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے البتہ مختلف مذہبی حلقے ان نظریات کو اپنے مقاصد اور مسلکی عزائم کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مختلف مذہبی حلقے اور ان سے وابستہ سیاسی جماعتیں نہ صرف ریاست کے نظریہ کو اجاگر کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں بلکہ اپنے ایجنڈے کے حصول کے لیے معاشرتی اقدار کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔اجتماعی مفاد کے لیے نہ صرف معاشرتی استحکام ضروری ہوتا ہے بلکہ معاشرہ کے کمزور طبقات کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ آج اگر مختلف مذہبی گروہ ریاست کی نظریاتی اساس کو ناجائز استعمال کر رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار بھی ریاستی پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے جس کی وجہ سے غیر ریاستی عناصر اپنے عزائم کی تکمیل میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو المیہ سے کم نہیں۔ ریاست کو قومی نظریہ کو فروغ دینا چاہیے ناکہ مخصوص قوتوں کوجن کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے‘ریاست کی اسی کمزور پالیسی کی وجہ سے سخت گیر حلقوں کو اپنے نظریات معاشرہ میں پھیلانے کا موقع ملتا ہے ۔اسی کمزوری کی وجہ سے آج سخت گیر حلقے سیاسی پارٹیوں یہاں تک کہ ریاستی اداروں میں سرایت کرنا شروع ہو گئے ہیں یہی طرز عمل پاکستان کو انتہا پسندی کو برداشت کرنے پر مجبور کئے ہوئے ہے اور اس کا موازنہ دیگر مسلم ممالک انڈونیشیا‘ بنگلہ دیش ‘وسطی ایشیائی ریاستوں اور ترکی سے کیا جا سکتا ہے۔ ان ممالک میں مذہبی حلقوں کو یہ اجازت نہیں کہ وہ ریاستی بیانیہ کو یرغمال بنا لیں۔ریاستیں علماء پر سرمایہ کاری کرتی ہیں ۔کسی ایک مذہبی گروہ کی فکر کا پرچار نہیں کرتیں۔ پاکستان ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود آج بھی اس مغالطہ کا شکار ہے کہ انتہا پسند قوتوں کو مینج اور کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ انتہا پسند قوتوں کومینج کیا جا سکتا ہے نہ ہی ان کی سرگرمیوں کو ایک محدود سطح تک پابند کیا جا سکتا ہے۔ماضی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ریاست کی طرف سے لچک کا رویہ نہ صرف انتہا پسند قوتوں کے لیے آکسیجن کا کام کرتا رہا ہے بلکہ ان کو حکومت سے سودے بازی کی پوزیشن میں بھی لے آیا ہے اور ریاستی لچک کو ان تنظیموں نے عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کی ایک مثال ایک فرقہ پرست تنظیم سے دی جا سکتی ہے یہ تنظیم ماضی میں مخصوص مسلکی زاویہ نگاہ تبدیل ہونے اور اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی سیاسی ڈھانچے کی تبدیلیوں کے باعث ریاستی نرمی کا فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ اس تنظیم کے سیاسی عزائم بھی رہے ہیں اور 1990ء کی ابتدائی دھائی میں یہ تنظیم پنجاب حکومت کی اتحادی بھی رہی ہے ۔یہاں تک کہ 2002ء میں جنرل مشرف بھی صرف اسی کے ایک ووٹ کی وجہ سے حکومت تبدیل کرنے میںکامیاب ہوئے تھے۔ حالانکہ اس کے بانی انتہا پسند تقریروں کی وجہ سے اپنی ایک پہچان رکھتے تھے۔ اسی تنظیم کے بطن سے لشکر جھنگوی نے جنم لیا جو مسلکی دہشت گرد تنظیم ہے اور آج بھی ملکی سکیورٹی کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ دو ایسی تنظیموں میں کئی ایک مشترکات ہیں ایک یہ ہے کہ دونوں ہی اپنے مخصوص مسلکی بیانیے رکھتی ہیں اور دونوں نے نعروں کی بدولت عوام میں مقبولیت حاصل کی ہے اور اس مخصوص فکر کو اپنی مضبوطی کے لیے استعمال کیا ہے۔ دیگر بے شمار مشترک اور یکساں حکمت عملی کے علاوہ نئی تنظیم نے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت ابھارنے کے لیے انتہائی حساس معاملہ کو استعمال کیا ہے۔ پہلی تنظیم کے ناراض عناصر نے تو 1990ء میں افغانستان اور کشمیر میں مختلف تشدد پسند گروہوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی مگر نئی والی کے مشتعل نوجوانوں کو اپنے جوش و جذبہ کی تسکین کے لیے یہ سہولت بھی میسر نہیں جس کی وجہ سے ان کے جنون سے ہیجان اور معاشرتی انتشار کا خدشہ کئی گنا بڑھ گیا ہے اور ملک میں پرتشدد کارروائیوں کا اندیشہ ہے۔ ابتدا میں کچھ حلقوں کی طرف سے یہ دلیل بھی دی جاتی رہی کہ تحریک لبیک کو مضبوط کرنے سے ایک مخصوص سکول آف تھاٹ کا اثر کم ہو گا۔ گو اس کے کہ تحریک لبیک کے اجزائے ترکیبی مختلف ہیں ‘یہ جہاد کے حوالے سے معتدل سوچ رکھتی ہے۔ اگر تحریک لبیک کو تقویت پہنچانے میں یہ سوچ کارفرما تھی تو یہ الٹ ثابت ہو چکی ہے ایک خطرے کا تدارک دوسرا خطرہ پیدا کر کے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹس سے یہ بات ثاب ہو چکی ہے کہ انتہا پسندی ایک طرز عمل ہے جس کو شروع کرنا تو بہت آسان مگر اس کی انتہا ممکن نہیں۔ تشدد کی طرف مائل تنظیموں کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے بعد ان کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جو اس بات کی دلیل تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تنظیمیں اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیں گی۔ حکومت کو تمام انتہا پسند تنظیموں کے خلاف صاف اور واضح پالیسی اپنانا ہو گی اور ایسے عناصر کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے تمام قانونی اور انتظامی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے حکومت انتہا پسندی کے انسداد کے لیے پالیسی دستاویزات سے بھی رہنمائی لے سکتی ہے جو گزشتہ چند برسوں میں مرتب کی گئی ہیں گزشتہ حکومت اس پالیسی کو نافذ کرنے میں لیت لعل سے کام لیتی رہی ہے مگر اب نئے ابھرتے خطرات کی نوعیت کا تقاضا ہے کہ اس پالیسی پر فوری طور پرعملدرآمد شروع کر دیا جائے۔ پاکستان عالمی برادری میں مسلم ریاست کی حیثیت سے ایک منفرد پہچان رکھتا ہے اس لیے عالمی سطح پر پاکستان کو شناخت کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ تمام حکومتی اداروں کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ انتہا پسند مذہبی گروہ ریاست اور معاشرے کے تعلق میں کچھ بھی نیا اضافہ نہیں کر سکتے۔پاکستان میں پہلے ہی ایک جامع سماجی معاہدہ آئین پاکستان کی صورت میں موجود ہے۔ ضرورت ا س امر کی ہے کہ اس کو ریاست اور معاشرہ کے تمام معاملات میں نافذ کیا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست کو مذہبی سکالر شپ کو مضبوط کرنا ہو گا بجائے اس کے کہ مختلف شدت پسند مذہبی گروہوں کو مضبوط کرے۔