اگلے چوبیس گھنٹوں میں 2018 ء کی انتخابی مہم انجام کو پہنچے گی جس کے بعد تمام جماعتیں اور امیدوار ایک دن کے لئے عوام کے رحم و کرم پر ہونگے۔اسکے بعد اگلے پانچ سال عوام جیتنے والے امیدوار یا جماعت کی مہربانیوں کے منتظر رہیں گے۔ تا حال جاری انتخابی مہم میں دو انتہائی افسوسناک دہشت گردی کے واقعات ہوئے جنہوں نے وقتی طور پر پورے ملک میں اس عمل کو کسی حد تک متاثر کیا لیکن ایک بار پھر سیاسی قائدین تمام خطرات کے باوجود بھر پور طریقے سے مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو کسی حد تک مہم میں زیادہ رکاوٹوں کا سامنا رہا لیکن اب وہ بھی کافی مطمئن طریقے سے مہم کر رہے ہیں۔ موجودہ انتخابی مہم کا اگر تقابل 2013 ء کے انتخابات سے کیا جائے تو صورتحال بہت بہتر نظر آتی ہے ۔ گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور چند ایک دوسری جماعتیں جو دہشت گردی اور دہشت گردوں کیخلاف ایک واضح اور حتمی مئو قف رکھتی ہیں انکو ہر قسم کی دھمکیوں اور خطرات کا سامنا تھا۔ انکی مہم اس دوران نہ ہونے کے برابر تھی جس کا نقصان انہیں انتخابات کے نتائج کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ اس بار قریباً ہر جماعت بھرپور طریقے سے اپنی مہم کر رہی ہے اور دہشت گردی کے واقعات کے باوجودجوش میں کو ئی کمی نظر نہیں آ رہی۔اگر کوئی تشویش کی بات ان انتخابات کے حوالے سے پہلے دن سے کہی جا رہی ہے وہ بر وقت انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں جو شاید 25 جو لائی کی شام ہی کو ختم ہونگے جب انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہو گا اور امیدوار اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ اس حوالے سے بہت سے مبصر مختلف پہلوئوں سے اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پشاور اور مستونگ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد خیال تھا کہ ایک ایسی کوشش کچھ بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے کی جا رہی ہے کہ انتخابات کو روکا جا سکے۔ ان واقعات کے بعد ہمارے خفیہ اداروں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ سب اہم رہنمائوں کی جان کو خطرہ موجود ہے اور اس کے لئے مہم کے دوران انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے خیال کیا جا رہا تھا کہ اگر دہشت گردی کا سلسلہ خدانخواستہ زور پکڑتا ہے تو انتخابات کا بر وقت انعقاد مشکل ہو گا۔دوسری وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ جس انداز میں مسلم لیگ (ن) کے سابق صدر اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کو پابند سلاسل کیا گیا ہے اور انہیں انتخابی مہم کا حصہ نہیں بننے دیا جا رہا اس پر احتجاج کرتے ہوئے وہ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر سکتے ہیں، جس میں ایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی بھی آخری وقت پر شامل ہو سکتی ہے۔تیسری وجہ جو انتہائی مضحکہ خیز ہے لیکن ہمارے کچھ مبصر اس پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے انتخابات میں جیتنے کا کوئی امکان ہوا تو نا دیدہ قوتیں انتخابات نہیں ہونے دیں گی۔ان تینوں وجوہات کا اگر جائزہ لیا جا ئے تو سوائے اسکے کہ دو بڑی جماعتیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کریں اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ انتخابات کا انعقاد نہ ہو سکے۔ابھی تک کی صورتحال دیکھ کر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کا پہلے اور نہ اب کوئی ارادہ انتخابات سے فرار کا ہے۔ آخری منٹ میں انتخابات کے بائیکاٹ کے امکانات موجود نہیں ہیں۔ اور پھر جس طریقے سے پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو کی قیادت میں اپنی جماعت کے اندر سندھ سے باہر پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نئی روح پھونکی ہے اسکے بعد کوئی بیوقوف ہی ہو گا جو اس ساری کاوش پر پانی پھیرنے کا مشورہ دے۔ اس بات کا اعتراف تمام جانبدار یا غیر جانبدار سیاسی تجزیہ نگار کر رہے ہیں کہ بلاول بھٹو کے حوالے سے 2016 ء میں جب انہوں نے عوامی سیاست شروع کی تھی اگر جاری رہتی تو وہ اب تک پیپلز پارٹی کو نانا نہیں تو والدہ کے دور جیسا بحال ضرور کر لیتے۔ لیکن آصف علی زرداری جو سیاسی چالوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں پتہ نہیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں پائے۔اب شاید انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ بلاول بھٹو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی بہت سے سرپرائزز دے سکتی ہے۔بلاول کے پاس 2023 ء تک وقت ہے کہ وہ پارٹی کو مضبوط کر سکیں۔ خصوصاً پنجاب اور دوسرے صوبوں میں اس میں نئی روح پھونک سکیں۔ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی ریٹنگ اگرچہ سب سے اوپر بیان کی جا رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کا گراف بھی تیزی سے اوپر گیا ہے۔پی ٹی آئی کی ریٹنگ اوپر جانے کی معقول وجوہات ہیں جن میں الیکٹیبلز کا بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کا حصہ بننا، کرپشن کے خلاف ایک انتھک ، مسلسل اور کامیاب مہم چلانا اور شریف خاندان کو اسکے نتیجے میں سزا ہو جانا۔ پھر مذہبی ووٹ کا ایک بڑا حصہ جو روائیتی طور پر مسلم لیگ (ن) کو جاتا تھا اس کا نہ صرف علیحدہ ہو جانا بلکہ انکے خلاف ڈٹ جانا اور تحریک چلانا۔اسکے بر عکس سب سے بڑی لوزر ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نظر آتی ہے۔جو وجوہات پی ٹی آئی کے حق میں ہیں وہی نون لیگ کے خلاف عمل پیرا ہیں جس سے اسکی پوزیشن بہت کمزور ہوئی ہے۔انتخابات کے بعد اگر انکی کارکردگی اچھی نہیں رہتی تو پھر انکے بینر تلے منتخب افراد بھی شاید ثابت قدم نہ رہ سکیں۔کوئی فارورڈ بلاک یا پھر چوہدری نثار کی قیادت میں ایک اور مسلم لیگ تشکیل پا جائے۔ کیونکہ جس قسم کی کارکردگی شہباز شریف بطور پارٹی صدر دکھا رہے ہیں اس سے امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ انتخابات میں کوئی بڑا معرکہ سر کر پائیں گے۔ اس انتخابی مہم کے دوران کچھ اہم لیڈران کی جانب سے غلط زبان کا استعمال تشویشناک ہے۔ الیکشن کمیشن نے اسکا نوٹس لیا ہے امید ہے کہ وہ بد زبانی کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کریں گے۔ لیکن جوش خطابت میں اس قسم کی زبان کا استعمال ہماری انتخابی سیاست میں نئی بات نہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ ہمیشہ کی طرح انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد ہم پہلے کی طرح نارمل ہو جائیں گے۔