آپ کو یاد ہو گا حلف نامے میں تبدیلی کا معاملہ جب سامنے آیا اور ن لیگی قیادت پر تنقید بڑھی تو جاتی امرا میں چند دن محافل نعت برپا کی گئیں جن میں میاں نواز شریف بھی تسبیح پکڑ کر بیٹھے نظر آئے۔ بھٹو صاحب نے نچلے طبقات کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے آستینوں کے بٹن کھول کر خطاب کیے۔ بے نظیر بھٹو غیر ملکی یونیورسٹی سے پڑھی ہوئی تھیں لیکن انہیں معلوم تھا کہ ووٹر ان کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی ہر تصویر میں سر پر دوپٹہ ہوتا۔ عمران خان اس معاملے میں ملنگ آدمی ہے۔ کھلاڑی ٹی شرٹ اور سپورٹس ٹرائوزر کے عادی ہو جاتے ہیں عمران خان بھی اکثر اجلاسوں میں اسی سادہ لباس کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں۔ دراصل سیاسی لیڈر ہمیشہ اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ وہ ایسے نظر آئیں جیسا ان کے ووٹر چاہتے ہیں۔ لیکن کپڑوں اور ظاہری انداز میں عوامی دکھائی دینے والے پاکستانی رہنما اس بات کو فراموش کئے رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام اپنے رہنمائوں کا سیاسی کردار کس نوع کا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے بے نظیر بھٹو دیکھی تھیں جو ہر معاشی‘ سماجی‘ ادبی اور بین الاقوامی معاملے پر کسی خاص تیاری کے بغیر بات کر لیتیں۔ انہیں اندازہ تھا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اب سوشلزم کی شکل بدلنی ہو گی۔ نیشنلائزیشن سے پرائیویٹائزیشن کی طرف آنے کی وجہ یہی تھی کہ وہ امریکہ کو دنیا میں جبراً اپنا نظام نافذ کرتے دیکھ رہی تھیں۔ امریکہ بنجر اور سنگلاخ زمین والے افغانستان میں بیٹھ کر چین‘ وسط ایشیا‘ بھارت‘ پاکستان اور ایران پر دبائو بڑھا رہا تھا۔ گویا 3ارب آبادی امریکی دبائو میں ہے۔ نائن الیون کے بعد چین اور روس نے حفاظتی اقدامات کر لیے لیکن خطے کے باقی ممالک خود کو بچا نہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد افغانستان کے کسی ہمسایہ اور قریبی ملک میں عالمی قدوقامت کی لیڈر شپ ابھرنے نہیں پائی۔ پیپلز پارٹی نے اپنا انتخابی منشور پیش کیا ہے۔ نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منشور کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان سے پہلی بار بدل کر بھوک مٹائو کیا ہے۔ جمہوریت اور آئین پیپلز پارٹی کی پہلی ترجیح رہی ہے منشور میں بھی ان کے تحفظ کی بات کی گئی۔ کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے کھاد کی صورت میں سبسڈی کا اعلان کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں ن لیگ کے اقدامات کو وفاق کے لیے نقصان دہ قرار دے کر ان میں ترمیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی کم کرنے کے لیے موثر تدابیر کی بحالی اور مزدوروں کے مسائل حل کرنے کی بات کی گئی ہے۔2013ء کے انتخابات میں جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ دینے والی پیپلز پارٹی نے اس بار اس معاملے کو منشور کا حصہ بنایا ہے۔ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات کی مہم مسلم لیگ ن کے لیے 2013ء سے کس قدر مختلف ہے۔2013ء میں اسے ایسی تحریک انصاف کا سامنا تھا جو ملک بھر میں ووٹ بنک ہونے کے باوجود اس ووٹ کو پولنگ سٹیشنوں تک لانے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے علاقوں میں مہم چلانے کے قابل نہیں رہی تھی۔ اس کے کئی لوگ مار دیے گئے اور جو زندہ رہے وہ ڈر ڈر کر مرتے رہے۔ درپیش انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی کا چیلنج سنجیدہ نہیں رہا کاش لاہور میں اعتزاز احسن‘ قاسم ضیائ‘ عزیز الرحمن چن جیسے امیدوار میدان میں ہوتے تو رونق رہتی تاہم تحریک انصاف گزشتہ پانچ برسوں کی نسبت بہت بدل چکی ہے۔ اس بار اندرون و بیرون ملک مقیم پاکستانی بدعنوانی کے خلاف لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ آئندہ انتخابات میں تینوں بڑی جماعتیں الگ الگ سوچ کے ساتھ آ رہی ہیں۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ انہیں حکومت بنانے کے لیے کسی سے اتحاد کی ضرورت نہ پڑے۔ غالباً ان کے ذہن میں سردست اتحاد کا آپشن نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی یہ باور کرا رہی ہے کہ مسلم لیگ ن نے وفاق کو کمزور کیا ہے۔ اگر وفاق کو آئین پسند طاقتوں نے مدد فراہم نہ کی تو انتشار بڑھ سکتا ہے۔ مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے بھاری مینڈیٹ یا سادہ اکثریت کی بات نہیں کی۔ وہ قومی حکومت کی بات کر رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ بعض معاملات میں عمران خان کا غیر لچکدار رویہ انہیں موقع دے سکتا ہے کہ وہ کم نشستوں کے باوجود حکومت سازی کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔ شہباز شریف اشارے دے رہے ہیں کہ معاشی اور خارجہ پالیسی پر فوج کی ڈکٹیشن لینے کو تیار ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ رہے اگر ان کے برادر بزرگ محاذ آرائی ترک نہیں کرتے‘ ان کی بھتیجی کا لہجہ تبدیل نہیں ہوتا اور عدلیہ و فوج کو گالیاں دینے والے ان کی جماعت میں اہم عہدوں پر فائز رہتے ہیں تو وہ کیا حکمت عملی اختیار کریں گے؟ مسلم لیگ ن کے پاس انتخابات میں واپسی کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو موروثی جماعت کے دائرے سے باہر نکالے اور احتساب کا سامنا کرے۔ ن لیگ اپنے منشور میں مستقبل کے لائحہ عمل سے زیادہ ماضی کے میگا منصوبوں کو بطور کارکردگی پیش کر رہی ہے۔ ہزاروں ارب روپے کے قرضے اور ایک ہزار ارب کا گردشی قرض ملک کو دیوالیہ کی طرف لے جا رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف پاکستان کو اسی لیے بلیک میل کر رہا ہے کہ اس کے رکن بھارت اور امریکہ جانتے ہیں کہ پاکستان قرضوں میں ڈوب چکا ہے اور اس موقع پر اگر اسے معاشی پابندیوں کا خوف دلایا جائے تو وہ ناصرف اپنی موٹر وے اور ریڈیو سٹیشن گروی رکھ سکتا ہے بلکہ اس کو فوجی طاقت کم کرنے پر بھی مجبور کیا جا سکتا ہے۔ عام آدمی کو معاشی پالیسیوں کا جھنجٹ سمجھ میں نہیں آتا لیکن جب ایسی مشکل باتیں اس کے مسائل کا حصہ بنتی ہیں تو اس کا ردعمل بہت شدید ہوتا ہے۔ مسلم لیگ کا منشور تیار کرنے والے منشی لوگوں کو بتائیں کہ اس قرض کی مئے کا کیا کریں گے؟ میاں نواز شریف نے ایک دوست سے رابطہ کیا‘ فوری طور پر امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں کو اپنے حق میں بیان جاری کرنے کی فرمائش کی۔ امریکہ نے بار بار رابطوں اور ایک دوسرے ملک کی اہم شخصیت کے کہنے پر صرف یہ بیان جاری کرنے پر اکتفا کیا کہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف چاہتے تھے کہ امریکی حکومت ان کے خلاف قانونی کارروائی پر تنقید کرے لیکن درمیانی رابطہ بھاری فیس کے باوجود امریکہ کو ایسے بیان پر آمادہ نہ کر سکا۔ اس کے بعد نواز شریف کے چہرے پر ہر لمحہ نئی تشویش ثبت ہوتی گئی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی مدد سے معذرت کر لی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے بھائی شہباز شریف سے رابطہ کیا اور پاکستان کے طاقتور حلقوں سے ڈیل کا کہا‘ نواز شریف چاہتے تھے کہ انہیں بے شک قید کر لیا جائے مگر مریم کے لیے رعائت حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ سارے معاملے کو ابھی بیان نہیں کیا جا سکتا تاہم شہباز شریف کی تازہ کوششوں سے یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ پنجاب میں کسی اور کی حکومت بن سکتی ہے۔ سیاسی تدابیر اور تقدیر میں فرق ہوتا ہے۔ اسی فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے غور کریں تو ساری مسلم لیگ کے لاہور ایئر پورٹ نہ پہنچنے کی بات سمجھ میں آ جائے گی۔نواز شریف کو جیل میں ٹی وی اور ایئرکنڈیشنر فراہم کر دیا گیا ہے۔ حنیف عباسی چھ سال تک مقدمہ کو تاخیر کا شکار رکھنے کے بعد آخر انجام کو پہنچے۔رہے نام اللہ کا۔