انتخابی اصلاحات کا معاملہ سیاسی طور پر خاصا ٹیڑھا ہے لیکن کچھ اُمید پیدا ہوچلی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیںاپنے اختلافات کم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو ذمّہ داری سونپی ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات پرحزب ِاختلاف کی جماعتوں سے بات چیت کریں تاکہ اس موضوع پرنئی قانون سازی کی غرض سے پارلیمان میں اتفاق رائے ہوسکے۔ اس سے پہلے حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے اعترضات کو نظر انداز کردیا تھا اور قومی اسمبلی سے یکطرفہ طور پر انتخابی اصلاحات کا ایک مسودہ ٔقانون منظور کروالیا تھا جو اب سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور میں زیر غور ہے۔ وزیراعظم کے تازہ اقدام سے لگتا ہے کہ وہ اپنے منظور کرائے ہوئے بل کو واپس لیکر اپوزیشن سے ملکر نیا قانون منظور کروانا چاہتے ہیں۔یہ مثبت سوچ ہے کیونکہ جس قانون کو وسیع تر سیاسی حمایت حاصل نہ ہو وہ مؤثر اور دیرپا نہیں ہوسکتا۔الیکشن کمیشن اور اپوزیشن ارکان نے نئے مسودہ قانون پر اعتراض کرتے ہوئے اسکی کئی شقوں کو آئین کے خلاف قرار دیا تھا ۔ان اعتراضات کے جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے سینٹ کمیٹی کے ارکان سے کہا کہ حکومت انتخابی قانون میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کرنا چاہتی جو آئین کے خلاف ہو۔ مطلب‘ حکومت اتفاق رائے پیدا کرنے میں سنجیدہ ہے ۔ ابھی تک جماعت ِاسلامی کے سوا تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی انتخابی اصلاحات کی بیشتر تجاویز کو مستردکیا ہے۔ وہ نہ الیکٹرانک مشین کے ذریعے ووٹنگ کے حق میں ہیں اور نہ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے پر راضی ۔ پی ٹی آئی کی مجوزہ ترامیم دونوںبڑی اپوزیشن جماعتوںکیلیے سیاسی طور پرسود مند نہیں۔ مشکل نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانی شہریوں کوووٹ ڈالنے کی سہولت مہیا کرنے پر متفق ہوگی کیونکہ تقریبا ٔاسّی لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کی بھاری اکثریت حکومتی جماعت تحریک انصاف کی حامی سمجھی جاتی ہے۔ دس پندرہ لاکھ اوورسیز نے بھی اگلے عام انتخابات میں ووٹ ڈال دیا توتیس سے چالیس انتخابی حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو فائدہ ہوگا۔ اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد وسطی پنجاب سے تعلق رکھتی ہے جو مسلم لیگ(ن) کا گڑھ ہے۔ گزشتہ جنرل الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کو یہاں سے بھاری اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ لیکن اس خطّہ سے تعلق رکھنے والے اوورسیز پاکستانیوں کے زیادہ ووٹ پی ٹی آئی کوملنے کی توقع ہے جس سے بازی پلٹ سکتی ہے۔ دوسری طرف‘آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین قابل ِقبول نہیں۔پیپلزپارٹی کا گڑھ اندرونِ سندھ ہے جہاں یہ صوبائی انتظامیہ کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہے تاکہ شکست کا کوئی امکان نہ رہے۔ الیکٹرانک مشینوں کے استعمال سے پیپلزپارٹی کو مشکل پیش آسکتی ہے۔حکومت کی مجوزہ ترمیم کے تحت ووٹر فہرستیں بنانے کا اختیار الیکشن کمیشن کی بجائے نادرا کو مل جائے گا۔ اپوزیشن اور الیکشن کمیشن اسکی مخالفت کررہے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ اس اقدام سے الیکشن کمیشن بے اختیار ہوجائے گا۔ تاہم‘ الیکشن کمیشن کے پاس اتنا بڑا انتظامی ڈھانچہ نہیں ہے کہ وہ تمام بالغ افرادکی رجسٹریشن کرے۔ عام لوگوں کو ووٹر لسٹوںمیںاپنا نام درج کروانے میں یا ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں اپنا ووٹ منتقل کروانے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ نادرا کا وسیع نیٹ ورک ہے جو یہ کام سہولت سے کرسکتا ہے۔ اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاطر الیکشن کمیشن اور نادرا دونوں کوووٹر لسٹیں بنانے کی مشترکہ ذمہ داری بھی دی جاسکتی ہے۔ انتخابی اصلاحات کا معاملہ بہت اہم ہے کیونکہ صاف ستھرے الیکشن پر جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ بدقسمتی سے ہر الیکشن کے بعد ہارنے والی جماعتیں انتخابی عمل میں شدید دھاندلی کی شکایت کرتی ہیں۔ کبھی ووٹنگ سے پہلے دھاندلی کرنے کا شور مچتا ہے۔ کبھی ووٹنگ کے بعدپولنگ اسٹیشن پر گنتی اورریٹرننگ افسر کے دفتر میںنتائج مرتب کرنے میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کا موقف ہے کہ اس مبینہ گڑ بڑ میں ریاستی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاںبھی ملوث ہوتی ہیں۔سابق لیگی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حال میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ ملک میں آج تک کوئی الیکشن منصفانہ نہیںہوا اور خود انکی جماعت تین مرتبہ دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجہ میںاقتدار میں آئی۔انہوںنے اعتراف کیا کہ وہ خود اپنی سیٹ دھاندلی کے ذریعے جیتے۔ پولنگ کے روز فوج کو تعینات کیا جاتا ہے تواس پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔اسکی ایک مثال ڈسکہ کے حالیہ ضمنی الیکشن تھے جنہیں الیکشن کمیشن نے کالعدم قرار دیکر دوبارہ پولنگ کروائی۔ دوبارہ ووٹنگ کے روز فوج اوررینجرز سے مدد لی گئی۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔ ہمارا سیاسی کلچر ایسا گلا سڑا ہے کہ کوئی طریقہ اختیار کرلیا جائے شکست کھانے والا اپنی ہار تسلیم نہیں کرتا۔عام لوگ سمجھتے ہیں کہ 1970 کے عام انتخابات بہت صاف ستھرے اور منصفانہ تھے۔ لیکن اسکے نتائج کو اکثریت حاصل کرنے والی دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو حکومت سونپنے کی مخالفت کی تھی۔پاکستان میں مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ الیکشن صاف ستھرے اور منصفانہ ہوں بلکہ دشواری یہ ہے کہ اس ملک کے سیاستدان ہر صورت حکومت میں رہنا چاہتے ہیں۔ سیاستدانوں کی اکثریت اس مہذب اور شائستہ روّیہ سے عاری ہے جوبرطانوی طرز کی پارلیمانی جمہوریت چلانے کیلیے درکار ہے۔ اس کا ایک اور مظہر ہماری قومی اسمبلی کی کاروائیوں میں نظر آتا ہے جہاں ارکانِ اسمبلی ایک دوسرے پر طعن و تشنیع اور گالم گلوچ کرتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان جاگیردارانہ‘ قبائلی مزاج کے حامل ہیں ۔ انکا خیال ہے کہ چودھراہٹ اور سرداری ہمیشہ ان کے پاس رہنی چاہیے۔ الیکشن تو محض رسمی کاروائی ہے۔ ان حالات میں اگر ہمارے سیاستدان انتخابات کی ساکھ قائم کرنے اور انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانے کی طرف مِل جُل کر پیش قدمی کرلیں تو یہ وطن ِعزیز کی خوش بختی ہوگی۔ ایک تاریخی واقعہ ہوگا۔ عملی سیاست سمجھوتوں اور کچھ لو‘ کچھ دو کے اُصولوں پر چلتی ہے۔ تحریک انصاف کو قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کیلیے اپنی انتخابی تجاویز میںلچک پیدا کرنا ہوگی۔اسی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کی ہر بات کو رَد کرکے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتیں۔ تمام فریقوں کو ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنا ہوگی۔ ضروری نہیں کہ الیکشن کے عمل میںبہتری کی تمام کوششیں ایک ہی قانونی ترمیم کے ذریعے نافذ ہوجائیں۔ فی الوقت موجودہ الیکشن قوانین میں جزوی ترامیم کرلی جائیں جو سب کیلیے قابلِ قبول ہوں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ 2023 کے عام انتخابات کے بعد بننے والی قومی اسمبلی حالات کا جائزہ لیکر مزید ترامیم کرسکتی ہے۔جمہوریت کا ارتقا اسی طرح ممکن ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کوئی انقلابی طرزِ حکومت نہیں ہے۔اسکا انحصار ارتقائی عمل پر ہوتا ہے۔ یہ انگلستان کے امراء کی روایات سے اخذ کردہ نظام ہے جس میں اپوزیشن اور حکومت کا ایک دوسرے سے روّیہ عملی طور پر دوستانہ رہتا ہے۔فرینڈلی اپوزیشن ہونا برائی نہیں اس پا رلیمانی نظام کا لازمی جزو ہے۔