اگست 2017 میں، قومی اسمبلی نے الیکشن بل 2017 منظور کیا۔ نیا قانون بنیادی طور پر نو انتخابی قوانین کا ایک متفقہ ورژن تھا۔ اس نے رولز بنانے، بجٹ بنانے اور عہدے بنانے کے لیے حکومت اور پارلیمنٹ پر انحصار کم کرکے الیکشن کمیشن کے اختیارات میں بھی اضافہ کیا۔ نئے قانون نے پولنگ کے لیے ٹیکنالوجی جیسے کہ ای وی ایم (سیکشن 103) اور پاکستان کے بیرون ملک مقیم شہریوں کے لیے آئی ووٹنگ (سیکشن 94) کے استعمال کی راہ بھی ہموار کی۔ الیکشن کمیشن نے اپنے اسٹریٹجک پلان2019-23میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو شامل کیا۔ اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ نے بھی کمیشن کو حکم دیا کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کے لیے آئندہ ضمنی انتخابات میں آئی ووٹنگ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا منصوبہ بنائے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اگست 2017 میں بل کی منظوری سے قبل پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کا دو سال کے عرصے میں 70 مرتبہ اجلاس ہوا۔ عام انتخابات 2018 نئے قانون کے تحت ہوئے۔ کہاوت ہے کہ کھیر کا امتحان کھانے سے ہوتا ہے، الیکشنز ایکٹ یا اصلاحات کا میرٹ انتخابات عمل سے ہے۔ 2020 کے آخر تک، پی ٹی آئی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ٹیکنالوجی کے استعمال پر شدید اختلافات سامنے آئے، جو پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے شدید ہو گئے ہیں۔ نیا حکمران اتحاد مستقبل کے انتخابات میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو تبدیل کرنے میں کافی سنجیدہ دکھائی دیتا ہے، جب کہ پی ٹی آئی انتخابی قانون پر سختی سے عمل درآمد چاہتی ہے۔سیاست کو سائنس کیوں سمجھا جاتا ہے یہ جاننے کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ ایک واحد عنصر جس نے ای وی ایم اور آئی ووٹنگ کی سیاست کا تعین کیا تھا - اس کے استعمال سے کسے زیادہ فائدہ ہوگا؟ چونکہ پی ٹی آئی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں زیادہ مقبول نظر آتی ہے، اس لیے وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو آئی ووٹنگ کی سہولت فراہم کرکے اس مقبولیت کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف اسی وجہ سے حکمران اتحاد پی ٹی آئی کو اس فائدے سے محروم کرنا چاہتا تھا۔ اسی طرح یہ سمجھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ حکمران اتحاد کی پارٹیاں ای وی ایم کے استعمال کی مخالفت کیوں کر رہی ہیں؟ صرف اس لیے کہ پولنگ، گنتی اور نتائج کی تیاری کے 25 مراحل پر انسانی عمل دخل کو ختم کرنے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ لہٰذا، یہ نام نہاد الیکٹ ایبل اور دھاندلی اور بدعنوانی کی اپنی مہارتوں کے عادی افراد کو نااہل کردے گا۔KP میں حال ہی میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج (فارم XXI) کے PATTAN کے تجزیے کے مطابق نیبر/دیہاتی کونسلوں کی 60فیصد نشستوں پر، جیت کا مارجن مسترد شدہ بیلٹ سے کم تھا اور چیئرمینوں کی نشستوں کی صورت میں یہ فیصد بڑھ کر 73 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔ 90 کی دہائی سے مسترد شدہ ووٹوں کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عام انتخابات 1993 میں، مسترد شدہ بیلٹس کا فیصد دالے گئے ووٹوں کا محض 1.33 فیصد تھا۔ 2013 تک، یہ بڑھ کر 3.2فیصد یا 1.5 ملین بیلٹ تک پہنچ گیا۔ مسترد شدہ بیلٹ 2018 میں قدرے کم ہو کر 3.1فیصد(1.6 ملین) رہ گئے۔ لیکن 2002 کے عام انتخابات کے بعد سے یہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ عام انتخابات 2018 میں 170 حلقوں (50 NA اور 120 PAs) میں مسترد شدہ بیلٹ اور جیت کے درمیان ایک تعلق نظر آتا ہے۔ 2013 کے انتخابات میں صرف 35 حلقے اس بدحالی کا شکار ہوئے۔ آئیے پہلے پاکستان کے انتخابی نظام کے بنیادی اصول کو سمجھیں۔ امیدوار ایک ووٹ سے بھی جیت سکتا ہے یا ہار سکتا ہے۔ عام انتخابات 2018 میں تقریباً آٹھ درجن امیدواروں کی تعداد 5000 سے کم تھی، اور چار درجن امیدواروں کی جیت کے 3000 سے بھی کم مارجن تھے۔ بس، اگر آپ ایک امیدوار کے طور پر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں، تو آپ کچھ پولنگ بوتھوں میں کچھ بیلٹس کو چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے کچھ پولنگ عملے کو رشوت دیتے ہیں اور سب سے عام طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ بیلٹ پیپرز کے کاؤنٹر فوائلز یا بیک سائیڈ پر دستخط نہ کریں۔ میرے حریف کے بیلٹ کو خراب کرنے کا ایک اور عام ٹول بیلٹ پیپرز پر اضافی نشان بنانا ہے۔ ایک امیدوار اضافی بیلٹ کے ساتھ بیلٹ بکس بھی بھر سکتا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے انتخابی اعداد و شمار کے تجزیے سے نتائج کی تیاریوں میں بھی بے شمار خرابیاں سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اوسطاً ایک چوتھائی سے زیادہ فارم 45 اور فارم 46 میں تضادات پائے گئے۔ای وی ایم کے استعمال سے پولنگ اور گنتی کے عمل میں مذکورہ بالا تمام دھاندلی کے طریقوں اور پولنگ عملے کی خامیوں کو ختم کرنے کا زیادہ امکان ہے۔ یہی بنیادی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ کچھ پارٹیوں نے ای وی ایم کے استعمال پر یو ٹرن لیا ہے۔ بہت سے سیاست دان اور لوگ ایک عنصر کی بنیاد پر ای وی ایم کے استعمال کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں کہ ترقییافتہ ممالک ای وی ایم کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ میرا سادہ سا جواب ہے کہ ان کا انتخابی نظام دھاندلی کا شکار نہیں ہے۔ لیکن، اصل سوال یہ ہے کہ حکمران اتحاد/اشرافیہ اس قانون کو کیوں پلٹانے پر تلی ہوئی ہے جو انہوں نے صرف پانچ سال قبل منظور کیا تھا؟آئیے اب مختصراً جائزہ لیتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے I-voting کے استعمال کے بارے میں اشرافیہ کی دوسری سوچ کیوں ہے۔ تقریباً 100 ممالک نے اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کو بیرون ملک سے پولنگ میں حصہ لینے کا حق دیا ہے۔ کچھ پوسٹل بیلٹ استعمال کرتے ہیں، کچھ فیکس اور انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کے لیے ٹیکنالوجی کی کسی نہ کسی شکل کو اپنانے کے عمل میں ہیں۔ کچھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مطابق 272 قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے بیرون ملک ووٹ کا اثر 94 نشستوں پر پڑ سکتا ہے۔ ایک تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ بیرون ملک مقیم ووٹرز لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، ڈیرہ غازی خان، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں این اے کی 40 نشستوں کو جیت سکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ سے محروم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے آئین کا آرٹیکل 17 تمام بالغ شہریوں کو ووٹ کا بنیادی حق دیتا ہے۔ ریاست کو اپنے 90 لاکھ شہریوں اور ان لوگوں کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جن کی ترسیلات ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔کیایہ عجیب بات نہیں ہے کہ جس اشرافیہ نے الیکشن بل کی تیاری کے لیے 70 اجلاس کیے، انہیں جب یہ احساس ہوا کہ اس کے مادی اثرات سے انہیں نقصان پہنچے گا تو اسے پلٹنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی؟