ملک بھر میں ضمنی انتخابات کا انعقاد کسی ناخوشگوار واقعہ کے بغیر اپنے انجام تک پہنچا۔ سیاسی تنائو‘ عدم برداشت اور بدزبانی کے عمومی ماحول میں یہ ایک اہم واقعہ ہے۔پرامن ماحول میں رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے کا موقع ملنا کچھ عرصے سے ناممکن دکھائی دیتا رہا ہے۔حالیہ ضمنی انتخابات قومی اسمبلی کی 11اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 24حلقوں میں ہوئے۔ حکمران تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کو چار جبکہ کے پی کے اسمبلی میں 5نشستوں پر کامیابی ملی۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی کے چار حلقوں ‘پنجاب اسمبلی کی 5نشستوں جبکہ کے پی کے میں ایک نشست پر کامیابی ملی۔ اے این پی کو کے پی کے میں تین نشستیں ملیں۔ پیپلز پارٹی کو سندھ کی دو صوبائی نشستیں ملیں۔ جمعیت علمائے اسلام کو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کی ایک نشست ملی۔ بلوچستان اسمبلی کی واحد نشست پر بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کو کامیابی حاصل ہوئی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی چھوڑی چار نشستوں میں سے دواپوزیشن کے پاس چلی گئی ہیں۔حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ان انتخابات میں رائے دہندگان کے رجحان کو اپنے نقط نظر سے ہم آہنگ قرار دے رہے ہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے عام انتخابات کی نسبت انتخابی عمل کو تسلی بخش اور زیادہ شفاف قرار دیا ہے۔ لاہور کے حلقوں میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی طرف سے بعض اشتعال انگیز بیانات اور سرگرمیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں مگر حکومت نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی گڑ بڑ کے لیے گنجائش پیدا نہ ہونے دی۔ ضمنی انتخابات کا انعقادنگرانوں کی بجائے عوام کی منتخب کردہ حکومت کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ نوے کے عشرے میں ضمنی انتخابات ہمیشہ حکومتیں جیتا کرتی تھیں۔ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کے دور میں جتنے ضمنی انتخابات ہوئے ان میں سے اکثر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ون ٹو ون مقابلے کی شکل اختیار کرتے رہے۔ سابق سپیکر ایاز صادق سمیت کئی لیگی رہنما چند سو ووٹوں کے فرق سے منتخب ہوتے رہے۔ سابق ادوار میں ضمنی انتخابات کے موقع پر سرکاری مشینری پوری طرح سے حکمران جماعت کے لیے سرگرم ہوتی تھی۔ ترقیاتی ادارے راتوں رات برسہا برس سے ٹوٹی سڑکیں مرمت کر دیا کرتے تھے تاکہ ووٹرز کی حمائت حاصل کی جا سکے۔ جن مجبور اور بے آسرا نوجوانوں کے لیے حکومت نے کچھ نہیں کیا ہوتا ان بے روزگاروں کے لیے نئی نوکریوں کی گنجائش پیدا کی جاتی۔ مریم نواز نے جب اپنی علیل والدہ کی این اے 120میں انتخابی مہم چلائی تو کئی ارب روپے ترقیاتی کاموںاور سینکڑوں نوکریاں ووٹروں کی ترغیب کے لیے استعمال ہوئیں۔ دراصل ماضی میں حکومتیں اس بات سے پریشان رہی ہیں کہ ضمنی انتخابات میں ان کی شکست کو ان کی مقبولیت میں کمی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اسی لیے وہ انتخابات میں کامیابی کے لیے بجلی اور گیس کے کنکشنوں سمیت ہر حربہ استعمال کرتی رہی ہیں۔ ہماری جمہوریت نے یہ دن بھی دیکھے ہیں کہ حکومتی جماعتیں ضمنی انتخابات کے دوران حلقے کے بدمعاش اور جرائم پیشہ عناصر کی مدد سے بے بس اور شریف ووٹروں پر دبائو ڈالتی رہی ہیں۔ انتخابی عمل میں پولیس کو جس طرح استعمال کیا جاتا رہا اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ پولیس افسران کی ڈیوٹیاں لگائی جاتیںکہ ووٹروں کو کس طرح مجبور کرنا ہے۔2013ء کے انتخابات کے دوران ایک ضلع کا ڈی پی او مسلم لیگ ن کے انتخابی جلسوں اور کارنر میٹنگوں میں باقاعدہ شرکت کرتا رہا۔ صد شکر کہ اس طرح کی بدانتظامی اور جبر کے ذریعے ووٹ ہتھیانے کی صورت حالیہ ضمنی انتخابات میں دکھائی نہیں دی۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ لاہور اوربنوں میں عمران خان کی چھوڑی ہوئی دو قومی نشستوں اور وزیر اعلیٰ کے پی کے کے آبائی ضلع سوات میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر تحریک انصاف کی شکست عوام کی جانب سے حکومت کے خلاف رائے کا اظہار ہے۔ اپوزیشن حلقے ان چار نشستوں پر تحریک انصاف کی ہار کو اپنے لیے عوام کی بڑھتی ہوئی حمائت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ان نشستوں کے ساتھ اٹک کی ایک نشست کو بھی شامل کر لیا جائے تو صورت حال کا پوری طرح جائزہ لینے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ اٹک میں تحریک انصاف کے داخلی اختلافات شکست کی وجہ بنے۔ لاہور میں خواجہ سعد رفیق عام انتخابات میں سات سو کے قریب ووٹوں سے ہارے تھے۔ ہمایوں اختر نے انتخابات سے چند روز قبل تحریک انصاف میں شمولیت کی۔ وہ تحریک انصاف کے مقامی کارکنوں سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ پھر تحریک انصاف کے قابل ذکر رہنما منتخب ہو کر اسمبلیوں میں جا بیٹھے ہیں ان افراد کی شرکت سے انتخابی نتائج تو بہتر ہو سکتے تھے مگر یہ انتخابی ضابطے کی صریحاً خلاف ورزی ہوتی۔ اس ملک نے ایسے بیسیوں انتخابات دیکھے ہیں جب وزراء اور اراکین اسمبلی کی فوج کسی شہر کے ضمنی انتخاب کی مہم چلانے جمع ہو جایا کرتی تھی۔ اہم بات یہ نہیں کہ تحریک انصاف کچھ نشستوں پر ہاری ہے زیادہ اہم اور مثبت بات یہ ہے کہ حکومتی جماعت کے طور پر تحریک انصاف نے وہ منفی ہتھکنڈے استعمال نہیں کئے جن کے ذریعے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جاتی رہی ہے۔ کسی حکومت کا قانون اور ضابطوں کی پابندی کے لیے اپنے اوپر غیر مقبول ہونے کا الزام لگوا بیٹھنا مستقبل کے مہذب سیاسی رویوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اپنے پہلے ایک سو روزہ پلان پر عمل شروع کر رکھا ہے۔ اس پلان کے تحت بدعنوان عناصر اور قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ وہ سرکاری افسران جو سابق حکمرانوں کے غیر قانونی کاموں میں سہولت کار بنے ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ قرضوں تلے دبی معیشت کی بری حالت سب کے سامنے آ رہی ہے۔ بگاڑ کو درست کرنے کے لیے ایسے کئی مشکل فیصلے کئے جا رہے ہیں جن سے عوام پر بوجھ بڑھا ہے۔ ایسا نہیں کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو اس صورت حال کا علم نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے چار روز قبل عوام سے وعدہ کیا کہ وہ قومی سطح پر ابھرنے والی خرابیوں کو درست کر دیں گے۔ سابق حکومتیں وہ سب فیصلے اس لیے نہ کر سکیں کہ انہیں عوامی رائے خلاف ہونے کے خوف تھا۔ عمران خان نے ملک کا انتظامی سربراہ ہوتے ہوئے انتخابی عمل کی شفافیت کو بحال رکھا ہے۔ پاکستانی سیاست میں مثبت اقدار جڑ پکڑ رہی ہے۔ حکومت اور اس کی انتظامی مشینری کی مداخلت اسی طرح ختم ہوتی رہی تو انتخابی عمل پر سب کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ووٹ کوعزت دینے کا یہی طریقہ درست ہے۔