عام انتخابات کے انعقاد میں چند روز ہی رہ گئے ہیں۔تینوں بڑی جماعتیں زور و شور سے انتخابی میدان میں اتری ہوئی ہیں اور اپنے اپنے منشور کا اعلان بھی کر چکی ہیں۔اگر منشور میں کئے گئے وعدوں اور بلند بانگ دعوؤں کو دیکھا جائے تو جو بھی جماعت منتخب ہو گی وہ عوام کے وارے نیارے کرا دے گی۔نئے ہسپتال بن جائینگے،پانی کی قلت دور ہو جائے گی،ڈیم بھی بن جائینگے،بجلی کا نظام بھی درست ہو جائے گا اور عوام کو ملازمتیں بھی مل جائینگی۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا منشور کہتا ہے کہ ایک کروڑ افراد کو نوکریاں دی جائینگی۔قبل ازیں میاں شہبازشریف جب پسینے سے شرابور اپنے منشور کا اعلان کر رہے تھے تو ان کا سارا زور سماجی شعبے یعنی تعلیم،صحت اور پینے کے پانی کی طرف تھا۔ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ پانی کے منصوبے بھی بنائے جائینگے جن کے ذریعے نہ صرف بجلی پیدا ہو گی بلکہ زراعت کی ضروریات بھی پوری ہونگی۔خان صاحب کا بھی کہنا ہے کہ وہ پانی کا ایک قطرہ بھی ضائع نہیں ہونے دینگے۔ادھر بلاول بھٹو کا اعلان کردہ پیپلزپارٹی کا منشور کہتا ہے کہ ہم غربت اور بھوک مٹائیں گے۔علاوہ ازیں انہوں نے پانی کا مسئلہ حل کرنے،صحت کی سہولیات کی فراہمی اور کسانوں کو سبسڈی بھی دینے کی بات کی۔اسی طرح پیپلزپارٹی نے اپنے نصف صدی کے سفر میں روٹی کپڑا اور مکان کو خیرباد کہہ دیا ہے۔یقینا انتخابات سے قبل منشور کا اعلان کرنا ایک رسم سی بن گئی ہے۔کوئی بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار آنے کے بعد اس پر عملدرآمد نہیں کرتی۔اگر کیا ہوتا تو پیپلزپارٹی کے چار ادوار میںاگر سب کو نہیں تو عوام کی کثیر تعداد کو روٹی کپڑا مکان فراہم ہو جاتا۔عوام تو کجا پیپلزپارٹی کے غریب جیالے اور سپورٹرز بیچارے بھی غریب سے غریب تر ہو گئے ہیں۔اگر روٹی کپڑا مکان کسی کو فراوانی سے ملا ہے تو وہ پارٹی کی لیڈر شپ ہی ہے۔میاں شہبازشریف تو اس لحاظ سے تازہ وارداتیے ہیںکہ ابھی حال ہی میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی دوسری پانچ سالہ ٹرم پوری ہوئی ہے اور وفاق میںمسلم لیگ ن نے ہی پانچ سال مدت پوری کی ہے۔اس لحاظ سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ بھائی آپ نے 2008ء اور 2013 ء میں جو وعدے کئے تھے وہ 2018 ء تک کہاں تک پایہ تکمیل کو پہنچے ہیںجن کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ اگر مسلم لیگ ن ایک بار پھر اقتدار میں آئی تو دودھ کی نہریں بہا دے گی۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے وہ بھی گزشتہ پانچ برس خیبر پختونخوا میں برسراقتدار رہی ہے۔وہاں بعض معاملات جن کا زیادہ تر تعلق نظم و نسق اور گورننس سے ہے ‘سے بہتری تو آئی ہے لیکن بندہ مزدور کے اوقات اسی طرح تلخ ہیں جیسے پہلے تھے۔عمران خان نے پہلے تو میٹرو بس کو بہت رگیدا اور بعدازاں لاہور میں اس کی پذیرائی کے بعد پشاور میں بھی اسی قسم کا پراجیکٹ شروع کر دیا جو کہ لاہور کی میٹرو بس سے دگنی لاگت کا تھاجو منڈھے بھی نہ چڑھ سکا،پشاور میں ابھی تک سڑکیں کھدی ہوئی ہیں۔اس کے برعکس پنجاب میں اورنج ٹرین جس پر پی ٹی آئی اور خود بڑی بڑی شاہانہ موٹروں پر پھرنے والی نام نہاد سول سوسائٹی نے تھو تھو کیا کا ایک حصہ مکمل ہو چکا ہے ‘کا کامیاب ٹرائل بھی ہو چکا ہے چونکہ یہ سی پیک کا منصوبہ ہے اس لئے مسلم لیگ ن نہ بھی برسراقتدار آئی اسے مکمل کر دیا جائے گا۔ سب سے دلچسپ حال پیپلزپارٹی کی سندھ اور بالخصوص کراچی میں طرز حکومت کا ہے۔ایم کیو ایم کے فاروق ستار کے سیاسی نظریے کے بقول سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے ان کی جماعت کے تو حصے بخرے ہو چکے ہیں اور جیسے مردار پر گدھ منڈلاتی ہیںساری سیاسی جماعتیں اس انجینئرنگ کا پھل کھانے کیلئے منڈلا رہی ہیں۔شہبازشریف نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کراچی سے ہی کیا تھا،وہ کراچی کے باسیوں کو کرانچی کے رہنے والے پان خور بھی کہہ رہے تھے اور ووٹ بھی مانگ رہے تھے۔پی ٹی آئی کو گزشتہ عام انتخابات میں کراچی سے کئی لاکھ ووٹ ملے تھے لہٰذا خان صاحب اس حوالے سے اب بھی بہت پر امید ہیں۔سب ہی کراچی کی گندگی کے ڈھیروں،ناقص نکاسی آب اور بوسیدہ انفراسٹرکچر کا رونا روتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ کافی عرصہ سے تو ایم کیو ایم اپنی متشدد پالیسیوں کے ذریعے کراچی پر قابض رہی ہے۔سابق میئر مصطفی کمال نے خود کو دنیا کا بہترین میئر بھی قرار دلوایا لیکن عروس البلاد کیلئے کچھ نہیں کیا۔اب وہ پاک سرزمین پارٹی کے روپ میں سامنے ہیں اور بقول سابق گورنر عشرت العباد یہ گملے میں لگایا ہوا پودا ہے اور جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ شہری اور دیہی سندھ کا ایک بڑا مسئلہ کرپشن بھی ہے ،پیسہ عوام تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔کراچی پر بڑے بڑے ڈان اور مگرمچھ قابض ہیں۔حال ہی میں کراچی کے تین بڑے بینکوں کے سربراہوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں‘ کیونکہ ان پر الزام ہے کہ وہ سیٹھوں اور بعض بڑے سیاستدانوں کیلئے وسیع پیمانے پر منی لانڈرنگ کر رہے تھے۔ جہاںتک دیہی سندھ کا تعلق ہے یہاں کے لوگ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہونے کے باوجود وہ ووٹ پیپلزپارٹی کو دیتے ہیں۔نام نہاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس جس میں چودھری برادران اور پیرپگاڑا بھی شامل ہیں‘کے باوجود اس مرتبہ بھی قرعہ فال پیپلزپارٹی کے نام نکلے گا۔نوجوان بلاول بھٹو سے بڑی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں انہیں سندھ کے عوام کی حقیقی فلاح و بہبود کیلئے کچھ تو کرنا چاہئے۔ویسے آصف زرداری تو اپنے برخوردار کو لیڈر آف اپوزیشن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے،مسلم لیگ ن یہاں کئی دہائیوں سے قابض ہے لیکن اب لگتا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ انہیں دوسروں کو بھی موقع دینا پڑے گا۔میاں نوازشریف تو پابند سلاسل ہیںلیکن مسلم لیگ ن کے سربراہ شہبازشریف کو بھی الیکشن نہ جیتنے جس کے موجودہ حالات میں امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ‘اپوزیشن میں بیٹھ کر سیاست کیلئے تیار رہنا چاہئے۔اب تک تو وہ اپنے مخالفین کو عمران خان نیازی اور کرپٹ زرداری جیسے القابات سے نواز رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ عمران خان کی گالی گلوچ والی سیاست جس کی مسلم لیگ ن بھی تقلید کرتی ہے کے کلچر کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ویسے شریف برادران کا یہ بڑا ’’درخشاں‘‘ ریکارڈ ہے کہ نہ میاں نوازشریف قومی اسمبلی کا رخ کرتے تھے اور نہ ہی شہبازشریف پنجاب اسمبلی کا۔انہیں حکومت ملے یا اپوزیشن اپنی ان عادات کو بدلنا پڑے گا بالخصوص شہبازشریف کو اپنے اندر تھوڑی سی انکساری پیدا کرنی چاہئے۔چند روز قبل جب وہ اپنے انتخابی منشور کا اعلان کر رہے تھے تو ایک کارکن کی ان کے حق میں نعرے بازی سے وہ اس قدر ڈسٹرب ہوئے کہ انہوں نے سٹیج چھوڑ دیا،یہ تحکمانہ رویہ بدلنا ہو گا۔ موقع پر موجود ایک صحافی نے اس مرحلے پر سرگوشی کی کہ کم از کم شہبازشریف اس قسم کے غصیلے رویے کا مظاہرہ نہ کرتے۔عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماغلام احمد بلور نے میڈیا پر گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا چونکہ پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا میں میں ایک ٹرم پوری کر لی ہے اور کے پی کے میں کوئی بھی پارٹی ایک مدت سے زیادہ برسر اقتدار نہیں رہی لہٰذا اب ہماری باری ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اے این پی باری لینے کے شوق فضول کے ساتھ ساتھ ووٹ بھی لے گی یا نہیں؟۔