ملک میں بے قابو مہنگائی اس سطح پر آ گئی ہے کہ خود وزیر اعظم اپنی تنخواہ سے گھر نہ چلنے کا اعتراف کر رہے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں مہنگائی کا احساس ہے، ہم نے پیسے لے کر جنگیں لڑیں، حکمران بادشاہوں کی طرح زندگی گزارتے رہے، کسی نے ٹیکس دینے کی ذمہ داری نہ نبھائی۔ ان کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ اپنے پائوں پر کھڑا ہوئے بغیر دنیا میں عزت نہیں کمائی جا سکتی۔ اچھی بات یہ کہ وزیر اعظم عمران خان نے قولی اعتراف کے ساتھ نچلے طبقات کے لیے کچھ آسانیوں کی غرض سے 74چھوٹے کاروباروں سے لائسنس ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کریانہ فروش، کپڑا فروخت کرنے والے، کلچہ شاپ جیسے کاروبار لائسنس سے آزاد کیے جا رہے ہیں۔عوام دوست فیصلوں کے اس تسلسل میں گیس سرچارج ختم کر کے یوریا کی بوری میں 400روپے کمی کا اقدام بھی شامل ہے جس سے یقینا کاشت کاروں کو سکھ کا سانس آئے گا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چند ہفتے قبل اضافہ ہوا، پھر کرائے بڑھے، اشیا کی نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ ہوا۔ ایک ایک کر کے ہر طرح کی مصنوعات پر پٹرولیم کے بڑھتے نرخوں کے اثرات مرتب ہوتے رہے۔ قیمتیں بڑھتی رہیں۔ حکومت نے ایک اور فیصلہ کیا کہ گیس کے نرخ بڑھا دیئے جائیں۔ جو مصنوعات گیس سے تیار ہوتی ہیں ان کی پیداواری لاگت بڑھی اور اشیاء کے نرخ بھی۔ رہی کمی آٹے کے نرخوں میں حالیہ اضافے نے پوری کر دی ہے۔ گھی، چینی، صابن، دالیں اور ملبوسات مہنگے ہو رہے ہیں۔ دودھ، دہی اور ان سے بنی چیزیں دکانداروں کی مرضی سے مہنگی ہو رہی ہیں۔ مہنگائی ہر دور میں محروم طبقات کے مسائل میں اضافے کا باعث رہی ہے۔ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو، مسلم لیگ ن کی یا پھر اب پی ٹی آئی کی انتظامیہ کو دیکھیں حکومتی فیصلوں کا بوجھ آخر کار کم آمدنی والے افرادکی گردن پر آن پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت مہنگائی کے عوامی واویلے پر کہتی رہی ہے کہ بین الاقوامی قرض خواہوں سے بھاری شرائط پر قرضوں کی واپسی کے باعث وہ تاحال غریب افراد کے لیے آسودگی کے منصوبے شروع نہیں کر پائی۔ ٹیکس دینے سے لوگ کتراتے ہیں لہٰذا حکومت کے پاس جس قدر مالی وسائل ہیں ان کا بڑا حصہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر اٹھ جاتا ہے۔ یقینا مہنگائی کے پس پردہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کا کردار موجود رہا ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ کسی جنس، زمین یا پیداوار کی بڑے پیمانے پر خریداری کر لیتے ہیں۔ حکومت کے گوداموں تک میں جب پیداوار یا جنس ختم ہو جاتی ہے تو یہ اپنا ذخیرہ من چاہے نرخوں پر مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔ ہمارے سماج میں بے حسی کس درجے کو پہنچ گئی ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ آتا ہے۔ رمضان کے آغاز سے قبل سبزیاں، پھل،گھی، چینی، گوشت، بیسن اور دیگر ضروری اشیا مہنگی ہونے لگتی ہیں۔ غضب خدا کا گزشتہ رمضان میں لیموں 400روپے کلو اور کیلا فی درجن اڑھائی سو روپے کا فروخت ہوا۔ عید کے موقع پر مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ آپس میں خوشیاں بانٹیں۔ یہاں حالت یہ ہوتی ہے کہ بالائی طبقات والے دکانوں پر آتے ہیں، قیمت پوچھے بغیر چیزیں پسند کرتے ہیں اور گاڑیاں بھر کر روانہ ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے سات کروڑ پاکستانیوں اور ان سے ذرا بہتر گزارہ کرنے والے مڈل کلاس کے افراد ہیں جو ان مقدس ایام کے دوران ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں ذبح ہوتے رہتے ہیں۔ عوام سابق حکومتوں کی کرپشن کے متعلق عمران خان کی تقاریر سنتے تھے تو وہ دعا کرتے کہ انہیں دیانتدار حکومت ملے۔ عمران خان کی ذات پر تاحال عوام کا بھروسہ ختم نہیں ہوا مگر حکومت میں شامل کئی شخصیات نے اپنا بھرم کھو دیا ہے۔ حکومت کے بنیادی افعال اور ذمہ داریوں کے بارے میں عمران خان خود اپوزیشن میں رہتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ جب کسی معقول وجہ کے بغیر ملک میں اشیائے ضروریہ مہنگی ہونا شروع ہو جائیں تو سمجھو کوئی با اختیار شخصیت یا گروہ بحران پیدا کر کے اس میں سے اپنے لیے مالی فوائد کشید کرنا چاہتا ہے۔ فرض کیا تحریک انصاف کی حکومت میں ایسا کوئی نہیں جو عوامی آرزوئوں اور تبدیلی کے پھولوں کا خون کر رہا ہو تو پھر مہنگائی کے اس بھیانک عمل کو انتظامی صلاحیت کی کمی، غفلت یا نا اہلی کہا جا سکتا ہے۔ یہ عمل باعث تعجب ہے کہ حکومت اصلاح احوال کے لیے جو تدابیر اختیار کرتی ہے کچھ دن بعد وہ زائل ہو کر معاملے کو مزید سنگین بنا دیتی ہیں۔ گڈز ٹرانسپورٹرز ہیں، نانبائی ہیں، میٹرو بس اتھارٹی کا تنخواہوں سے محروم سٹاف ہے، پشاور ریپڈ بس کی چھپکلی ہے جو نگلی جا رہی ہے نہ اگلی جا رہی ہے۔لاہور اورنج ٹرین کا معاملہ ہے جو چل نہیں رہی۔ سیاسی اتحادی ہیں جن کے ساتھ وعدوں پر عمل درآمد میں تاخیر کی گئی، پارٹی کے اندر روز بروز مضبوط ہوتی دھڑے بندی ہے جو پی ٹی آئی کی پہلے سے کمزور مقامی تنظیموں کو اور کمزور کر رہی ہے۔ ان حالات میں کسی بھی معاملے کو بحران کی شکل دے دینا مشکل نہیں کیونکہ پارٹی کا عمل دخل حکومتی امور میں بطور مددگار سرے سے موجود نہیں۔ وزیراعظم اس سے کم آمدنی والے طبقات کے لیے اظہار ہمدردی اچھی بات ہے۔ خصوصاً کھاد سستی کرنے سے کسان پر مالی اخراجات کا بوجھ کم ہو سکتا ہے لیکن بدانتظامی کے سامنے بند باندھنے کی کوئی کوشش نظر نہ آنا بذات خود تشویش کا باعث ثابت ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم اس معاملے پر توجہ دیں۔