سو چہروں والے بایون مندر کی بھول بھلیوں میں میری لیلیٰ گم ہو گئی تھی اور میں ’’لیلیٰ لیلیٰ پکاروں میں بَن میں، پیاری لیلیٰ بسی میرے من میں‘‘۔ کی تصویر بنا اسے پکارتا پھرا اور میں ہرگز مبالغہ نہیں کر رہا جب یہ اقرار کرتا ہوں کہ اس کی یوں گمشدگی نے مجھے حواس باختہ کر دیا یہاں تک کہ میں نے پتھروں پر نقش دیویوں اور اپسرائوں کو بھی غور سے دیکھا کہ کہیں وہ ان میں منتقل ہو گئی ہو۔ کیا جانئے اس مندر کے درو دیوار میں تراشے ہوئے جتنے بھی خواتین کے مجسمے ہیں وہ سب ایسی بیویوں کے ہوں جو گئے زمانوں میں گم ہو گئی ہوں اور ہاں! دیویوں اور اپسرائوں میں فرق ہوتا ہے۔ دیویاں محبت کے پتھروں سے تراشی جاتی ہیں اور اپسرائیں ہندو دیو مالا کے مطابق جب سمندروں کی جھاگ آلود لہریں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو ان کے ملاپ سے جنم لیتی ہیں۔ مونا کو نہ ملنا تھا نہ ملی۔ اب اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ مقامی تھانے میں درج کروا دوں۔ کمبوڈیا میں جانے تھانے ہوتے ہیں بھی کہ نہیں، کوئی اور نظام رائج ہو۔ میں بایون مندر سے باہر آیا۔ دیر تک دھوپ میں چلتا رہا پھر داخلہ کے دروازے تک آیا اور اس دوران ذہن میں تھانہ پہنچ کر جو رپورٹ درج کروانی تھی اس کا متن تیار کرتا رہا کہ ایک عددپاکستانی بیوی جو پچھلے سینتالیس برس سے میری بیوی چلی آتی ہے۔ گم ہو گئی ہے۔ ادھیڑ عمر کی ہے‘ سر کے بال گھنے اور سفید ہیں۔ ہندوستانی ادکارہ وحیدہ رحمان سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ آنکھی بڑی بڑی ہیں جو صرف مجھے گھورتی بہت ہیں۔ راجپوت قبیلہ کی ہے ‘ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی اور جتنے بھی اصیل راجپوت ہوتے ہیں ان کے ماتھے پر ’’ہینڈل ود کیئر‘‘ ثبت ہوتا ہے ورنہ نتائج کے آپ ذمے دار ہوں گے۔ اگر کہیں بھٹکتی ہوئی مل جائے تو مجھے اطلاع کیجیے، میں انگ کورٹ واٹ مندر کے داخلے پر بیٹھا ہوا ملوں گا جہاں بندر بیٹھتے ہیں۔ داخلہ کے دروازے پر کچھ کمبوڈین گائیڈ حضرات سیاحوں کی آمد کے منتظر منڈلا رہے تھے۔ میں نے ان میں سے ایک سے پوچھا’’برادر یہاں کوئی پولیس سٹیشن ہے؟‘‘ اور وہ ایک اور مددگار ثابت ہونے والا کمبوڈین تھا۔ کہنے لگا’’سر کوئی مسئلہ ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ ہاں ہے‘ میری بیوی گم ہو گئی ہے اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانی ہے’’اس نے تفصیل دریافت کی کہ آپ کی وائف کا ناک نقشہ کیسا ہے۔ کیا آپ کے پاس اس کی کوئی تصویر ہے؟ ظاہر ہے بایون میں بھی میں اپنے سیل فون کیمرے سے اس کی تصویریں اتارتا رہا تھا چنانچہ میں نے فوراً میمونہ کی ایک تصویر داخلہ کے دروازے کے پس منظر میں اتاری ہوئی اسے دکھائی۔ اس نے کچھ غور کیا اور کہنے لگا‘ سر آپ سائوتھ گیٹ سے داخل ہوئے تھے اور یہ نارتھ گیٹ ہے۔ آپ انہیں سائوتھ گیٹ کے داخلے پر دیکھ آئیں۔ اگر نہ ملیں تو میں آپ کے ساتھ پولیس سٹیشن تک چلوں گا۔ مسئلہ حل ہو گیا۔ بایون کے داخلے کے چار دروازے ہیں۔ ہم سائوتھ گیٹ سے داخل ہوئے تھے اور مونا وہاں ایک پتھر پر بیٹھی تھی اور میں نارتھ گیٹ کی راہداری میں اسے تلاش کرتا رہا۔ داخلہ کے چاروں دروازے ہو بہو تھے۔ میں لپکتا ہوا، پسینہ پونچھتا سائوتھ گیٹ کے داخلے کے دروازے پر پہنچا اور مونا اس پتھر پر بیٹھی تھی جہاں میں اسے بٹھا کر گیا تھا۔ یہی میری زندگی کا سب سے پرمسرت لمحہ تھا جب میں نے اسے وہاں براجمان دیکھا۔ میری جان میں جان آئی۔ اپنی پریشانی بیان کی کہ تم کہاں گم ہو گئی تھیں تو وہ کہنے لگی‘ عجیب شخص ہو‘ میں تو وہیں اسی پتھر پر بیٹھی ہوں گم تو تم ہو گئے تھے۔ ’’بہرحال جو بھی گم ہوا تھا اب آئندہ تم نے میرے ہاتھ کو تھام کر چلنا ہے کہیں پھر نہ گم ہو جائو‘‘’’ہاتھ تو میں تمہارا جوانی میں بھی تھام کر کبھی نہ چلی تھی۔ اب اس بڑھاپے میں یوں رومانٹک ہو جانا اچھا لگے گا۔ صاحب پرے پرے۔‘‘ میں یہاں دو چار مندر اپنی تحریر میں سے حذف کرتا ہوں کہ آپ بور ہو جائیں گے اور آپ کو سیم ریپ کے سب سے شہرت یافتہ مندر ’’ٹاپروہم‘‘ لیے چلتا ہوں جو عرف عام میں ’’ٹومب ریڈرز ٹمپل‘‘ کہلاتا ہے کہ اس کے کائی زدہ درودیوار کے کچھ منظر انجلینا جولی کی، پال وڈ کی اس فلم میں فلمائے گئے تھے۔ سچ مچ کی اپسرائیں تو وہ مشہور ایکٹریس ہوئی ہیں جو جہاں قدم رکھتی ہیں ان کے نقش پر لوگ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ مندر بنا لیتے ہیں اور ان کے نقش کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔ ساٹھ برس گزر گئے جب ایوا گارڈنر ’’بھوانی جنکشن‘‘ کی شوٹنگ کے لیے لاہور آئی تھی اور آج بھی ان زمانے کے لوگوں کو مال روڈ کے فٹ پاتھ پر جہاں جہاں اس نے قدم رکھا تھا وہ مقام یاد ہیں۔ مدھو بالا ایک مرتبہ لندن جاتے ہوئے کراچی ایئر پورٹ پر ٹھہری تھی اور اس کے بے ایمان کر دینے والے حسن کی رعنائیاں اب بھی وہاں جھلک دکھلاتی ہیں۔ البتہ انجلینا جولی کمبوڈیا سے سرسری نہ گزری’’ٹومب ریڈرز ‘‘ کی شوٹنگ کے دوران وہ کمبوڈیا کے عشق میں مبتلا ہو گئی یہاں تک کہ اس نے دو بے آسرا کمبوڈین بچوں کو گود لے لیا۔ ہم سے تو وہ کمبوڈین بچے ہی اچھے جو انجلینا جولی کی گود میں کھیلتے تھے۔ ’’ٹاپروہم‘‘ کو کسی راجہ جیسا درمان نے تعمیر کیا اور اسے اپنی ماں کے نام سے منسوب کیا لیکن مجھے کچھ شک ہے۔ راجہ صاحب پر جانے کون سی کوک شاستر نازل ہوئی کہ وہ جان گئے کہ کبھی آئندہ زمانے میں موٹے کشش سے بھرے ہونٹوں والی بالی وڈ کی ایک اپسرا یہاں آئے گی۔ جین اور بلائوز میں کسی ہوئی، مسلح حالت میں مار دھاڑ کرتی کسی طلسمی گلوب کے حصول کے لیے ادھر آنکلے گی۔ تو انہوں نے صرف اس کے لیے ایک ایسا مندر تعمیر کیا جو اس کے بدن کے زاویوں میں ڈھل جاتا تھا۔اگرچہ اسے اپنی ماں سے منسوب کیالیکن نیت اس کی بری تھی۔ اس کے خوابوں خیالوں میں انجلینا جولی کے موٹے ہونٹ اور بڑی بڑی آنکھیں تھیں۔ ’’ٹاپروہم‘‘ بے شک انجلینا جولی کے حوالے سے نامور ہوا لیکن مجھے ایک اور شک ہے کہ انجلینا جولی دراصل اس مندر کی نسبت سے نامور ہوئی۔ یہ مندر نہ تھا ایک طلسم کدہ تھا۔ کائی زدہ پتھروں میں پوشیدہ مجسموں کی جادوگری تھی۔ اور اس مندر کی سب سے بڑی پہچان ’’سینگ‘‘ نام کے وہ عظیم الشان درخت تھے جن کی سفید اژدھا جڑیں زمین میں نہ تھیں۔ انہوں نے اس مندر کے بام ودرکو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان جڑوں میں کہیں کہیں کوئی مہاتما بدھ دکھائی دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ پوشیدہ ہو رہا ہے۔ اس مندر کے اندر ایک عاشقوں کا مندر ہے۔ یہ جڑیں اس کی جانب میں رینگتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ ایک طلسم کدہ تھا۔ حیرتوں کا ایک بت کدہ تھا اور نہ اس کے شاندار قدیم درو دیوار اور نہ ہی ان پر نقش بت کدے ایسے تھے کہ ہم مبہوت ہو جائیں بلکہ اس کا ماحول تھا۔ افسردہ کائی زدہ‘ قدیم کسی گہرے افسوں میں۔ جو دل کے اندر جو ایک مندر ہوا کرتا ہے، اس جیسا تھا۔ فارن آفیسر‘ افسردہ ۔بہت سے مندر ایک خواب ہوتے ہیں لیکن ٹاپرا وہم ایک خواب کے اندر ایک اور خواب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک خواب سے جاگا جا سکتا ہے۔ دنیا کی حقیقت میں واپس آیا جا سکتا ہے لیکن کسی خواب کے اندر جو خواب ہوتا ہے وہاں سے واپسی مشکل ہوتی ہے اور خواب در خواب میں اگر انسان جاگ جائے تو موت سے ہمکنارہو جاتا ہے۔ شام ہونے لگی تھی۔ ہم بمشکل اس خواب در خواب میں باہر آئے ہم بہت تھک چکے تھے بلکہ مندروں سے بیزار ہو چکے تھے لیکن ہمارے شیڈول میں درج تھا سم ریپ کا سب سے بلند پہاڑ کی چوٹی پر ایک ’’نام بیکھنگ‘‘ نام کے مندر کے کھنڈر میں اور وہاں جو آفتاب کے غروب کے منظر ہوتے ہیں وہ نہ دیکھے تو کچھ بھی نہ دیکھا۔ اور وہاں کمبوڈیا کے جتنے بھی قابل دید مقامات ہیں جہاں سیاح آتے جاتے ہیں، وہاں ان کے راستوں میں کسی چھپر تلے براجمان متعدد موسیقار قدیم دھنیں بجا رہے ہوتے ہیں اور یہ موسیقار سب کے سب جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار لولے لنگڑے اور اکثر نابینا ہوتے ہیں سیاح ان پر ترس کھا کر چند سکے ان کی نذر کر دیتے ہیں۔ ’’نام بیکھنگ‘‘ کا اس چوٹی پر بکھرا ہوا مندر اجڑ چکا تھا۔ سینکڑوں لوگ غروب کے منظروں کے نظارے کرنے کے لیے چوٹی تک چلے آئے تھے۔ اس پہاڑی کی بلندی سے بہت گہرائی میں انگ کور واٹ کا مندر ایک ڈاک کے ٹکٹ جتنا دکھائی دے رہا تھا۔ سورج ڈھلا تو پوشیدہ جنگلوں میں سے ایک شور اٹھا۔ رات کے پکھیرو کوکنے لگے۔ میں نے مونا کا ہاتھ تھام کر کہا ’’رات ہو رہی ہے‘ واپسی کا سفر اختیار کرنا ہے ، کہیں پھر سے گم نہ ہو جانا۔‘‘