میری اس سے پہلی ملاقات منور انجم نے کرائی تھی، وہ ایک کاروبار میں منور انجم کا پارٹنر بھی رہا تھا،نام تھا اس کا مبین ملک،بہت جوان، بہت خوبصورت، لاہور کے ککے زئی خاندان سے تعلق تھا، لباس پہننے کا سلیقہ بھی خوب جانتا تھا، لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ رقصاں رہتی،محکمہ انکم ٹیکس کا اعلیٰ افسر تھا ،لیکن اس کی کرپشن کی کوئی کہانی کبھی نہیں سنی تھی،ایک دن منور انجم نے دھماکے دار انکشاف کیا کہ مبین ملک نے اس زمانے کی ٹاپ کی ہیروئن انجمن سے شادی کر لی ہے، منور انجم نے بتایا کہ اس زمیندار سے انجمن کو طلاق ہوئے تو ایک عرصہ ہو گیا ہے ، بیٹا انجمن کی تحویل میں ہی ہے وہ اسے ایچی سن میں پڑھا رہی ہے۔ میں یہ خبر سن کر خاموش ہوگیا، سوچا چلو، اسی بہانے انجمن سے ملاقات ہی ہوجایا کرے گی کیونکہ میں بھی متاثرین انجمن کلب کے ممبران میں شامل تھا، لیکن مبین ملک کبھی انجمن کو ملوانے میرے پاس نہ آیا، لیکن کچھ مہینوں کے بعد کبھی کبھار اس نے دوبارہ میرے پاس آنا شروع کر دیا، ان ملاقاتوں کے دوران میری کبھی مبین سے انجمن کے بارے میں کوئی بات نہ ہوئی، میں بات کرتے ہوئے اس لئے بھی گھبراتا تھا کہ کہیں کسی لمحے میری زبان نہ پھسل جائے،میں انجمن کے بارے میں بہت اوپن سیکرٹس جانتا تھا، وقت نے گزرنا ہوتا ہے سو وہ اپنی روایتی تیزی سے گزرتا گیا، ایک دن وہ مجھے اخبار کے دفتر کی سیڑھیاں نیچے اترتا ہوا نظر آیا تھا لیکن میں نے اسے اوپر آنے کی دعوت نہیں دی تھی، اس دور سے مبین ملک کی موت تک کئی کہانیوں نے جنم لیا لیکن میں آج کے کالم میں اختصار سے اس دن تک کاذکر کروں گا جب میں اس کی موت پر آخری مرتبہ اس کے گھر گیا تھا، اس کے بعد ایک بار انجمن نے کھانے پر اپنے گھر آنے کی دعوت دی تھی اور یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ کھانا اپنے ہاتھوں سے بنائے گی لیکن میں نہ جا سکا تھا۔ ٭٭٭٭٭ ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب لوگ مجھے اپنے خانگی معاملات اور جھگڑوں میں منصف بنا لیا کرتے تھے، کوئی بھی مقدمہ ،، میری عدلت ،، میں آتا، میں بلا سوچے سمجھے سماعت کے لئے منظور کرلیتا، کچھ عرصے بعد منور انجم ، مبین ملک اور ایک تیسرے نا معلوم نوجوان کے ساتھ میرے پاس آ یا، مبین ملک سے میری علیک سلیک تو پہلے سے ہی تھی، جن دنوں میں اخبار کے لندن ایڈیشن میں کام کر رہا تھا وہ انجمن کے ساتھ ہمارے آفس بھی آیا تھا ،وہ شاید لندن میں بیوی سمیت مستقل سکونت اختیار کرنا چاہتا تھا لیکن اپنے مقصد میں ناکام رہا تھا ، انجمن سے میری شناسائی محمد علی صاحب نے کرائی تھی، ہم نے ایم اسماعیل فلم ایوارڈز کا سلسلہ شروع کیا تو ان دنوں انجمن کی پہلی فلم،، وعدے کی زنجیر،، ریلیز ہوئی تھی، علی بھائی نے تجویز کیا کہ انجمن کو حوصلہ افزائی کا ایوارڈ ملنا چاہیئے، ان کی یہ تجویز جیوری نے منظور کر لی ، انجمن کا پہلا مکان گلبرگ میں علی بھائی کے گھر کے قریب ہی تھا، ایک بار لندن میں مبین ملک نے مجھے اپنے گھر ڈنر کی دعوت دی ، اس کا کہنا تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے بہت سے ایم پیز بھی اس ڈنر میں آ رہے ہیں، مسرت شاہین نے مجھے راستے میں کیچ کرکے وہاں جانے سے روک دیا تھا ہم بات کر رہے تھے ۔ منور انجم کے، مبین ملک اور ایک نامعلوم نوجوان کے ہمراہ میرے پاس آنے کی ، منور انجم کا کہنا تھا کہ مبین اور انجمن ایک دوسرے کے خلاف تھانوں کچہریوں میں جنگ کر رہے ہیں، میں نے مبین ملک سے کہا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اس کا جواب تھا وہ بس جان چھڑانا چاہتا ہے، مبین کے ساتھ آنے والے نوجوان نے لقمہ دیا کہ ، ایک ایکٹرس کبھی اچھی بیوی نہیں بن سکتی ، میں نے پوچھا کہ ، بچوں کا کیا بنے گا؟ نامعلوم نوجوان کا جواب تھا کہ ایکٹرس کے بچے ایکٹرس کے پاس ہی رہنے چاہئیں، اس ایشو پر ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں، میرا خیال یہی تھا کہ دونوں میں صلح ہوجائے تو بہتر ہے۔ بسا اوقات وہ مجھ سے متفق بھی ہوجاتا مگر اسی لمحے اس کے ساتھ آنے والا نامعلوم نوجوان ایکٹرس ازم کے خلاف لیکچر دینے لگتا، اور خاص طور پر مجھے متوجہ کرکے کہتا کہ آپ کو فلم ایکٹرس کی نفسیات کا پتہ ہی نہیں ،آپ خواہ مخواہ ماہر ایکٹر بن رہے ہیں؟ ایک دن میرا دماغ گھوم گیا ، میں نے انتہائی غصے میں مبین اور منور سے سوال کیا یہ آدمی ہے کون ؟ آپ لوگوں نے میرا اس سے کبھی مکمل تعارف ہی نہیں کرایا کبھی، دونوں نے یک زبان جواب دیا،،یہ ارشد ہے، انجمن کا چھوٹا بھائی۔