ہم بھی عجیب لوگ ہیں اس بحث میں الجھ گئے ہیں کہ کیا اب بھی یہ ثابت ہوا کہ نہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہمارے اس فقرے میں بھی ہمارے اندر کی ایک آواز بولتی ہے جو ایک طعنہ سے پیدا ہوئی ہے۔ وہ طعنہ یہ ہے کہ دہشت گردی صرف مسلمانوں کا شیوہ ہے۔ ہم مطمئن ہورہے ہیں کہ صرف ہم ہی نہیں ہیں، اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ ثابت ہو گیا کہ سفید فام انتہا پسند بھی شقاوت قلبی کی اس انتہا تک جا سکتے ہیں جس کا مظاہرہ نیوزی لینڈ میں ایک پاگل شخص نے کیا ہے۔ ہمیں تسلی ہوتی ہے کہ وہ شخص سفید فام تھا، مسلمان نہ تھا بلکہ اس کا نشانہ مسلمان بنے۔ پس دہشت گرد کہنے والے خود دہشت گردی پر اتر آئے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے، انسان اپنی اصل میں کتنا کمینہ ہے۔ یہ کمینگی کسی وقت بھی ہڑ بھڑا کر جاگ اٹھتی ہے۔ پھر یہ کسی بات کا لحاظ نہیں کرتی۔ میں اسے اذیت پسندی کی نفسیاتی جبلت کے ساتھ نتھی کر کے اس کی سفاکیت کو کم نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ اسے اس تناظر میں ضرور دیکھنا چاہتا ہوں کہ انسان کے اندر تباہی اور تشدد کا ایک ایسا مادہ موجود ہے جو کسی وقت بھی سب لبادے پھاڑ کر باہر نکل آتا ہے۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو گویا اپنا آپ چھپانے کی کوشش کروں۔ کیا یہ حق کی بات ہوگی کہ اگر میں یہ کہوں تم ہم پر الزام لگاتے تھے، اب اپنے دہشت گردوں کو کیا نام دو گے۔ اس طرح تو میں اپنے دہشت گردوں کا جواز ڈھونڈوں گا اور یہ میں نے نہیں کہنا جو دہشت گرد ہے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ میاں ہم سے مراد مسلمان بھی ہیں اور انسان بھی۔ انسانیت بھی ہمیں دہشت گردی سے اجتناب کا درس دیتی ہے اور اسلام تو مذہب ہی سلامتی کا ہے، اس میں تو اس فعل بد کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔ پھر یہ تشدد وحشت، سفاکیت بار بار نکال کر سامنے کیوں آتی ہے۔ ہمارے جو دعوے ہیں، اسے فی الحال رہنے دیجئے، مغرب کی دنیا جو خود کو مہذب کہتی ہے آخر کس لیے اس کمینگی پر اتر آتی ہے کہ اس کے لیے انسان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ جنگوں کو تو ہم نے کئی مقدس روپ دے رکھے ہیں۔ بعض جنگیں حب الوطنی کے نام پر لڑی جاتی ہیں، بعض نظریات کی آڑ میں۔ چلئے یوں بھی کہہ لیجئے بعض مذہب کے نام پر، کچھ کہہ لیجئے۔ وہ تو ایک بڑا سوال ہے کہ انسان امن پسندی کے دعوئوں کے باوجود جنگ پر کیوں اتر آتا ہے۔ اب میرا صبر بھی جواب دے رہا ہے۔ میں اپنی طرف سے بڑا اعتدال پسند صلح جو اور امن دوست بننے کی کوشش کررہا ہوں۔ اندر سے غصے کی آگ میں جل رہا ہوں اور بری طرح کھول رہا ہوں۔ نیوزی لینڈ جیسے پرسکون خطے میں جہاں سے نیا دن طلوع ہوتا ہے، یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ میں اس دیس کبھی نہیں گیا مگر اس کے بڑے بھائی کو دیکھا ہے۔ آسٹریلیا میں رہا ہوں۔ مجھے یہ خطہ بہت اچھا اور پرسکون لگتا تھا۔ عام طور پر انگلستان ہو یا امریکہ یا یورپ کا کوئی ملک وہاں کے سفید فام ہم جیسے ایشیائیوں سے رسم و راہ نہیں بڑھاتے۔ آسٹریلیا میں مجھے ایسا نہیں لگا۔ وہاں تو نسلی امتیاز کا اظہار کرنا اتنا بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا کہ وہاں کا شہری اس بارے میں بہت محتاط ہے۔ بعض لوگ کہتے تھے تم انہیں اندر سے نہیں جانتے۔ اندر کا حال تو خدا ہی جانتا ہے مگر بعض علامتیں ایسی ظاہر ہونے لگی تھیں کہ لگتا تھا کہ وہ بھی تارکین وطن سے چڑنے لگے ہیں حالانکہ ان کی تو ساری آبادی ہی تارکین وطن پر مشتمل ہے۔ یہی نہیں بلکہ زیادہ تر وہ تارکین وطن جنہیں سزا کے طور پر یہاں بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے یہاں کے مقامی باشندوں کو مار مار کر چند علاقوں تک محدود کردیا جس طرح امریکیوں نے ریڈ انڈین کو کہا تھا۔ اب مگر ان کے بارے میں امتیاز ظاہر کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہ لوگ اب بھی آسٹریلوی آبادی کا ایک حصہ ہیں۔ ان میں بعض تو اب بھی اپنی عادات میں عہد قدیم میں رہ رہے ہیں مگر ان کے حقوق کی تحریکیں آج بھی وہاں چلتی رہتی ہیں۔ نیوزی لینڈ تو اس سے بھی آگے گویا پاک اور پوتر علاقہ ہے۔ یہاں کی وزیراعظم کو شلوار کرتا پہنچے اور دوپٹہ اوڑھے آپ نے تقریر کرتے دیکھا ہی ہوگا۔ یہاں کی مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ کثیرالنسلی ہو گیا ہے۔ مجھے یاد ہے آسٹریلیا میں اپنے قیام کے دوران مجھے گولڈ کوسٹ پر ایک مسجد کے افتتاح میں جانے کا موقع ملا۔ مسلمانوں کا ایسا تنوع، کلچر کی رنگارنگی میں نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ بہت خوبصورت مجمع تھا جہاں بوسنیا سے لے کر فیوجی تک کے مسلمان خلط ملط ہورہے تھے ایک نیا عالم اسلام طلوع ہورہا تھا۔ میں بھی کب کی باتیں کرنے لگا، یہ تو گزشتہ صدی کی بات ہے جی ہاں، بیسویں صدی کی۔ اتنے عرصے میں بہت کچھ بدل چکا ہوگا۔ بھئی، یہ کوئی ایسا پرانا واقعہ تو نہیں ہے۔ یہ صدی تو ابھی کل کی بات ہے۔ درمیان میں بس نائن الیون ہی تو ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ تبدیلی آئی ہے۔ یورپ میں تو لوگوں میں دونوں طرح کے اثرات پیدا ہوئے۔ مشرق وسطیٰ پر تھونپی گئی جنگ نے دنیا کا ذہن بدل دیا۔ داعش ہی پیدا نہیں ہوئی جن سے اظہار ہمدردی کے لیے یورپ کے نوجوان جوق در جوق مسلمان ہو کر جہاد پر جانے لگے کہ ہم نے بہت ظلم کیا ہے۔ ادھر جب یہاں کے رہنے والوں پر زندگی تنگ ہوئی تو وہ جان خطرے میں ڈال کر نکلے۔ درمیان میں بحر روم کی موجیں ٹھاٹھیں مار رہی تھیں۔ بعض اپنی جان سے گزر گئے۔ بعض ساحل پر جا اترے۔ ایک کم سن، خوبرو بچے کی ساحل سمندر پر پڑی لاش نے مغرب کے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہاں بحث چل نکلی۔ جرمنی، فرانس ہر طرف گفتگو کا ایک بازار گرم تھا۔ اندر سے یہ جبلت جاگ رہی تھی کہ یہ لوگ آ کر ہمارے وسائل پر قبضہ کریں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی آبادی ہم گورے عیسائیوں سے بڑھ جائے۔ یہ اپنا کلچر لے کر آئیں گے۔ ہماری عادات خراب نہ کریں۔ سامراجی دور میں عیسائی مشنریاں اپنے دیس واپس جا کر یہی واویلا کرتی تھیں کہ ان ایشیائی اور افریقی ممالک میں ایسے لوگ ہیں جنہیں تہذیب نہیں آتی۔ ہم انہیں تہذیب سکھانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے چند سامراج نے اسے اپنا کاروبار بنا لیا تھا۔ میں نے آج ہی علامہ اقبال کا ایک واقعہ پڑھا ہے جب ایسے ہی ایک پادری کی تقریر میں وہ بھی موجود تھے۔ اقبال نے کھڑے ہو کر لوگوں سے انگریزی میں پوچھا، لوگو، کیا میں انہیں وحشی اور غیر مہذب لگتا ہوں۔ پروپیگنڈہ بہرحال پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔ مفادات اور عرض مندیاں اپنی جگہ موجود ہوتی ہیں۔ بات اتنی پھیلی ہے کہ امریکہ نے تو تیزی دکھائی ہے اور وہاں کے سفید فام قوم پرستوں نے میدان مار لیا ہے۔ آپ ٹرمپ کے بیانات میں تارکین وطن کے مسائل کی گونج نہیں سنتے۔ میکسیکو پر تو دیوار بلند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ویزہ کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ اسلامو فوبیا کو ہوا دے رہا ہے۔ کہتے ہیں فرانس میں اس لہر کا بڑا چرچا ہے۔ کیوں نہ ہو، آخر برسوں الجزائر پر حکومت کی ہے، وہاں کی آبادی کو غلام رکھا ہے۔ ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرتے رہے ہیں کہ الجزائر نو آبادی نہیں ہے۔ الجزائر فرانس کا حصہ ہے۔ درمیان میں ذرا سا سمندر ہی تو ہے، اس کے ثمرات اور نتائج سے اب ڈر لگنے لگا ہے تو آزاد الجزائر میں جمہویرت بھی قبول نہیں ہے۔ نتیجہ یہ کہ الجزائر کے فرانسیسی اب آپ کے گھر آنگن میں آن پہنچے ہیں۔ اس شخص نے بھی فرانس کا چکر لگایا تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سفید فاموں میں ابھرنے والے ان جذبوں کا گہرائی سے مشاہدہ مطالعہ کیا جائے۔ ایک نہیں کئی واقعات ہو چکے ہیں اور کہنے کا نام نہیں لیتے۔ اب اس کے اثرات اتنی دور جنوب میں جا پہنچے ہیں، انسان کو اپنے اندر جھانکنا ہوگا۔ صرف کسی مذہب پر الزام لگانا کافی نہیں ہوگا۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ سرمائے اور محنت کی آزاد نقل و حرکت نہیں، اس وقت تک راس آئے گی جب یہ تمہارے معاشی مسائل کا حل کرے، وگرنہ تم اسے معاشرتی اور تہذیبی سطح پر حل کرنے کو تیار نہ ہو گے۔ پھر اندر سے لاوا تو ابلے گا نا۔ بڑا بھانبڑ مچا ہوا ہے۔