ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بیان میں کہا ہے:’’دنیا کے حالات شدت سے بگڑ رہے ہیں جو بھارت کیلئے سخت تشویش کا باعث ہیں‘‘۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے حالات شدت سے بگڑ رہے ہیں جو دنیا کے لیے سخت تشویش کا باعث ہیں۔ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا والے دیکھ رہے ہیں لیکن مصلحتاً چپ ہیں کیونکہ آج کل کی دنیا شریفوں اور مظلوموں کے بجائے بدمعاشوں اور ظالموں کا ساتھ دیتی ہے۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ بھارت کے حالات کا بگاڑ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ اسے حق حاصل ہے کہ وہ ان سے جیسے چاہے نمٹے۔ اصولاً یہ بات درست ہے۔ ہر ملک کو اپنے حالات بگاڑنے کا حق حاصل ہے لیکن بھارت کے معاملے میں دنیا، بالخصوص بھارت کے ہمسایوں کے لیے تشویش کے کئی پہلو موجود ہیں۔ مثلاً یہ کہ جونہی بھارت میں کسی جگہ گڑبڑ ہوتی ہے، ہم پاکستانیوں کو فکر لگ جاتی ہے کہ اس گڑبڑ کا الزام ہم پر آئے کہ آئے۔ نریندر مودی ایک شرارتی ذہن کا مالک ہے؛چنانچہ وہ اپنے بے پناہ شر سے کام لیتے ہوئے ہرگڑبڑ میں پاکستان کا نام اس صفائی سے ثابت کر دیتا ہے کہ بے اختیار منہ سے داد نکل جاتی ہے۔ کشمیر میں یہ ہزاروں لاکھوں انسان جو بھارتی جبر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، کیاانہیں پاکستان نے گھروں سے نکالا ہے۔ اس ننگِ انسانیت شخص کی اس ماہرانہ تکنیک پر ہمیں وہ خاتون خانہ یاد آ رہی ہے جس سے اس کی ہمسائی نے پوچھا،’’یہ شیشہ کس نے توڑا ہے؟‘‘ تو اس نے کہا، ’’میرے خاوند نے‘‘۔ ہمسائی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا، ’’وہ کیسے؟‘‘ جواب ملا، ’’میں نے جب اسے چمچہ مارا تو وہ جلدی سے نیچے بیٹھ گیا اور اس کی اس حرکت کی وجہ سے چمچہ شیشے میں جا لگا‘‘۔ تو جناب آپ نے دیکھا کہ اگر وہ خاوند بدنیتی، چالاکی اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے سرنیچے نہ کر لیتا تو شیشہ ٹوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ خاوند کی ایک آنکھ نکل سکتی تھی جس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ دیکھنے کا کام وہ دوسری آنکھ سے لے سکتا تھا۔ اسی طرح ہمارے ایک دوست ہیں(جن کا نام لکھ کر ہم ان کی ازدواجی زندگی کو مزید تلخ نہیں کرنا چاہتے) ان کا کہنا ہے کہ میری بیوی ہر خرابی کا ذمہ دار مجھے ٹھہرانے کی سپیشلسٹ ہے اور دنیا کی کوئی بیوی اس فن میں اس کی برابری نہیں کر سکتی۔ مثال کے طور پر ایک بار میں گھر پہتنچا تو میری بیوی بخار میں پھنک رہی تھی۔ پتہ چلا کہ اس نے سرد موسم میں ٹھنڈے پانی سے نہا لیاتھا۔ میں نے کہا تمہیں اتنی ٹھنڈ میں سرد پانی سے نہانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ یہ سن کر وہ غصے میں بولی: ’’سب تمہارا قصور ہے۔ اگر تم وقت پر گھر آ جاتے اور مجھے نہانے سے منع کر دیتے تو یہ مصیبت نہ پڑتی‘‘۔ ٭٭٭٭٭ کسی ملک کا کوئی ذمہ دار رہنما اگر کسی اور ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت شروع کر دے تو اسے سفارتی آداب اور بین الاقوامی ضابطہ اخلاق کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا بھی آج تک یہی خیال تھا بلکہ ہم تو ہمسایوں کے معاملے میں بھی اس اصول پر سختی سے عمل پیرا تھے حالانکہ کئی بار جی چاہا کہ کسی ہمسائے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا لطف اٹھایا جائے لیکن ہر بار یہ ضابطہ اخلاق اس خواہش کی راہ میں حائل ہوتا رہا اور ہم سوائے اس کے کچھ نہ کر سکے کہ کبھی کسی ہمسائے کے نوکر کو بازار میں روک لیا اور اس سے میٹھی میٹھی باتیں کر کے چند اہم راز اگلوا لیے اور اسے اللہ کے نام پر دس بیس روپے بھی دے ڈالے تا کہ یہ ملازم آئندہ بھی اپنے مالک اور مالک کے اندرونی رازوں کو ہمارے سامنے طشت ازبام کرتا رہے۔ اگر کسی ہمسائے کے گھر سے برتن ٹوٹنے، بچوں کے رونے اور زور زور سے دروازے بند ہونے اور کھلنے کی آوازیں آنے لگتیں تو ہم مشترکہ دیوار سے لگ کر اکڑوں بیٹھ جاتے اور دیوار کے کانوں سے کان لگا لیتے۔ بعض اوقات خوش قسمتی سے ہمارے فون کی لائن کسی ہمسائے کے فون سے مل جاتی تو ہم دفتر سے چھٹی کر لیتے تا کہ پتہ چلے کہ ہمارے ہمسائے کس قماش کے لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں۔ نیز فون پر مخرب اخلاق باتیں تو نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر کسی روز ڈاکیہ کسی ہمسائے کا خط غلطی سے ہمارے ہاں پھینک جاتا تو ہمیں فوراً شک گزرتا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ ہو سکتا ہے اس لفافے میں کوئی قابل اعتراض قسم کا مواد ہو جس کی اطلاع حکام کو کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ چنانچہ اس احساس فرض کے ساتھ ہم انتہائی احتیاط سے لفافہ کھولتے، لفافے کے مندرجات کو غور سے پڑھتے اور اگر کوئی قابل اعتراض بات نہ ہوتی، تو اتنی ہی احتیاط سے اسے بند کر دیتے اور موقع پاتے ہی وہ خط ہمسائے کے صحن میں پھینک دیتے۔ ہمیں ان لوگوں کی ذہنیت پر سخت افسوس ہوتا جو ہمسایوں کے خطوں کو پھاڑ پھینکتے ہیں۔ بہرحال اس طریقے سے دن گزر رہے تھے۔ ہمسایوں کے ساتھ ہمارے تعلقات مثالی تھے۔ تمام ہمسائے ہمارے شریف النفس ہونے کی قسم کھاتے لیکن خود ہم ان احتیاطوں سے سخت تنگ تھے۔ ہم اس تلاش میں تھے کہ کوئی ایسا فارمولا ہاتھ لگے جس پر عمل کر کے ہم کھلم کھلا ہمسایوں کے اندرونی بلکہ بیرونی(یعنی دفتر وغیرہ کے) معاملات میں بھی دخل دے سکیں۔ بھلا ہو بھارتی حکمرانوں کا۔ انہوں نے ہمیں ایسا گر سمجھا دیا ہے کہ ہم ہمسایوں کی زندگی حرام کر دینے کے باوجود مداخلت کے مرتکب قرار نہیں پاتے‘ چنانچہ اس فارمولے پر عمل کر کے ہم نے کل اپنے ہمسائے کو گھر کے سامنے روک لیا اور لگے تقریر جھاڑنے: ’ صاحب! حاشاوکلا میں آپ کے اندرونی معاملات میں قطعاً دخل دینا نہیں چاہتا کیونکہ میں اسے انتہائی گھٹیا حرکت سمجھتا ہوں۔ میں تو بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کی منجھلی صاحبزادی فون پر ایک لڑکے سے گھنٹوں باتیں کرتی رہتی ہے۔ اب جناب ہم بھی بچوں والے ہیں۔ اس قسم کی حرکات……‘‘ہم بولے جا رہے تھے اور ہمارا ہمسایہ منہ پھاڑے ہماری طرف دیکھے جا رہا تھا۔