مجھے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سے ہمدردی نہیں۔ آئین کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی اور عدالتی فعالیت کا میں ہمیشہ سے پرجوش حامی ہوں‘ جسٹس افتخار چودھری اور جسٹس ثاقب نثار کی عدالتی فعالیت نے اگرچہ بہت سے سوالات کو جنم دیا مگر حکومت اور بیورو کریسی کی نااہلی‘ نالائقی عوامی مسائل و مشکلات سے چشم پوشی اور لوٹ مار کو دیکھ کر ہر ذی شعور شہری یہ سوچتا ہے کہ اگر عدلیہ بھی داد رسی نہ کرے تو انسان کہاں جائے‘ کس سے فریاد کرے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے نے مگر اوروں کی طرح مجھے بھی مایوس کیا ہے۔ جناب اعتزاز احسن‘ علی ظفر‘ عرفان قادر‘ انور منصور اور کئی دیگر نامور وکلاء فیصلے کی ساکھ پر سوال اٹھا چکے اور ان کی رائے معتبر ہے کیونکہ انور منصور کے سوا کوئی ماہر قانون پرویز مشرف کا ہمدرد ہے نہ عدلیہ اور سول بالادستی کا مخالف اور نہ اپنے دل میں اسٹیبلشمنٹ کے لئے نرم گوشہ رکھنے والا۔ مجھے مگر فیصلے کے قانونی پہلوئوں نہیں‘ سیاسی مضمرات پر تشویش ہے‘ پاکستان میں قانون ہمیشہ سے موم کی ناک ہے‘ طاقتوروں کی مرضی ہے جس طرف چاہیں موڑ دیں۔ جسٹس افتخار چودھری بااصول اور دبنگ جج تھے۔ بحال ہونے کے بعد کسی کو خاطر میں نہ لاتے‘ اعتزاز احسن ایسے خیر خواہ اور طاقتور وکیل کو مخدوم یوسف رضا گیلانی کے مقدمہ میں ہزیمت سے دوچار کیا‘ مگر اپنے صاحبزادے ارسلان افتخار کا مقدمہ پیش ہوا تو ساری اُصول پسندی ‘ قانون پرستی اور دیانتداری بالائے طاق رکھ دی‘ ساتھی ججوں نے بھی وہی کیا جو صاحبزادے کے مفاد میں تھا‘ ملک ریاض بے چارہ ثبوتوں کا پلندہ لئے دربدر خوار ہوتا رہا‘ بالآخر صلح کر لی ساری ایماندار اور انصاف پسند عدلیہ برخوردار کے سر پر دست شفقت رکھے ایک دوسرے کی طرف دیکھتی رہی مجال ہے کسی کی رگ مساوات پھڑکی ہو۔ مثالیں اور بھی بہت ہیں مگر یہ کالم کا موضوع نہیں‘ پرویز مشرف جب تک اقتدار میں تھا‘ دیگر طبقات کی طرح عدلیہ کی آنکھ کا بھی تارا تھا‘ ارشاد حسن خان کی سربراہی میں جس عدالتی بنچ نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا اس میں جسٹس افتخار چودھری شامل تھے۔اگر ریکوڈک اور سٹیل ملز کی نجکاری میں رکاوٹ ڈالنے‘ آئی جی اور چیف سیکرٹری سطح کے سرکاری افسروں اور جسٹس فخر الدین ابراہیم جیسے سینئر قانون دانوں کی برسر عدالت توہین کرنے اور سوموٹو نوٹس کے ذریعے سرکاری مشینری کو مفلوج کرتے چلے جانے کی شکایات پر جنرل پرویز مشرف استعفیٰ طلب نہ کرتے تو معلوم نہیں مزید کتنے عرصہ تک موصوف ان کی آمریت سے چشم پوشی اختیار کئے رکھتے۔ ان سے استعفیٰ طلب کیا گیا‘ تب بھی وہ باوردی صدر تھے مگر ہمارے ممدوح کو ان کی وردی کھٹکی نہ فوجی آمریت بری لگی۔ جج سے شکایات بھی پرویز مشرف سے زیادہ شوکت عزیز کو تھیں جو پرویز مشرف کے وزیر اعظم اور کاروبار ریاست چلانے کے ذمہ دار تھے۔ استعفیٰ سے انکار پر افتخار چودھری کو عوامی پذیرائی ملی۔ سبب یہ تھا کہ قائدین جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف مصلحت کی چادر اوڑھے‘ فوجی آمر سے درپردہ مصالحت اورمفاہمت کئے بیرون ملک مقیم تھے۔ ان کے مقامی کارندے وفادار اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے تھے اور سیاسی قیادت کی بزدلی اور بے عملی سے بدظن سیاسی کارکنوں و عوام کو افتخار چودھری میں دلیر و بے باک فرد کا عکس نظر آیا جو فوجی آمر کو للکارنے کا حوصلہ رکھتا ہے‘ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اگر دم رخصت ایک فوجی جرنیل افتخار چودھری کا ہاتھ نہ دباتا تو تاریخ قطعی مختلف ہوتی۔ عدلیہ بحالی کے بعد قوم کو اعتزاز احسن کے الفاظ میں ماں جیسی ریاست ملنے کی اُمید تو بر نہ آئی مگر بار بنچ دونوں طاقتور ہوئیں اتنی زیادہ طاقتور کہ بار کا ہاتھ ججوں کے گریبانوں سے ہوتا ہوا‘ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں زیر علاج مریضوں کے آکسیجن ماسک تک پہنچ گیا اور بنچ نے ایک سابق اور ایک حاضر سروس آرمی چیف کی گردن دبوچ لی ۔عمران خان‘ حکومت اور دیگر اکابر اور شہری بے چارے کس باغ کی مولی ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع اور سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو غدار قرار دینے کا فیصلہ اس وقت آیا جب مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کی قیادت تسلسل سے اپنے کارکنوں کے حوصلے بڑھا رہی تھی کہ نومبر‘ دسمبر کے مہینے عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ پر بھاری ہیں۔ افغانستان کی مخصوص صورتحال ‘ایران امریکہ کشمکش‘ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت کے علاوہ نریندر مودی کے دیگر اقلیت دشمن اقدامات کے باعث پاکستان کو حاصل تاریخی سیاسی‘ سفارتی اور جغرافیائی مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے درکار سول فوجی ہم آہنگی ہمارے کسی دشمن کو پسند ہے نہ امریکہ جیسے طوطا چشم موقع پرست دوست کو۔ عمران خان اور قمر جاوید باجوہ کی شراکت توڑ کر پاک فوج کا بازو مروڑ کرہی پاکستان کو اندرونی اور بیرونی عدم استحکام سے دوچار کیا جا سکتا ہے اور اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمن کی پیش گوئیاں اسی تناظر میں تھیں ۔جنرل اسمبلی سے عمران خان کے دلیرانہ خطاب کے بعد میرے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ اب عمران خان کی خیر ہے نہ جنرل باجوہ کی‘ امریکہ مہاتیر محمد اور رجب طیب اردوان سے تنگ ہے‘ عالم اسلام میں اپنا مافی الضمیر جرات مندی سے بیان کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھنے والے لیڈر کو کبھی برداشت نہیں کرے گا‘ میں اس وقت ہنس دیا مگر آج اس کی دور اندیشی پر رشک آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے مدت ملازمت کا سوال اٹھا تو حکومت کی قانونی مشینری بے بس نظر آئی۔ تیاری نہ تھی یا کچھ دیگر عوامل کارفرما تھے فی الحال ہر بات پردہ اخفا میں ہے‘ عمران خان نے کسی کی نااہلی‘ نالائقی‘ غفلت اور کوتاہی کا نوٹس لیا نہ کوئی سزا یاب ہوا‘ جنرل پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ آیا تو عمران خان ملک سے باہر تھے۔ ان کے کسی ترجمان نے فوری تسلی بخش ردعمل نہ دیا‘ جب فوجی قیادت نے شدید ردعمل ظاہر کیا تو وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور اٹارنی جنرل انور منصور کو ہوش آئی اور دونوں نے کئی گھنٹے بعد پریس کانفرنس کر ڈالی۔ سینئر فوجی قیادت کی بیٹھک کے بعد جو پریس ریلیز جاری ہوا اُسے پڑھ کر بہت سوں کو آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور کا وہ ٹویٹ یاد آیا جو ’’ریجکٹڈ ‘‘ کے لفظ سے مشہور ہے‘ پرویز مشرف نے آئین شکنی کا جرم 12اکتوبر کو کیا‘ اسے ہماری عدلیہ نے تحفظ فراہم کیا اور فوجی آمر کو آئین میں ترمیم کا حق دیدیا۔ 3نومبر کا اقدام خلاف آئین ضرور تھا آئین شکنی کے مترادف نہیں کہ حکومت کو چھیڑا گیا نہ پارلیمنٹ سے تعرض ہوا‘ جج متاثرہ فریق تھے اور انہیں انصاف کی فراہمی میں غیر معمولی تحمل و احتیاط کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی۔ دونوں فیصلوں کو وکلا اور سول بالادستی کے نام پر پاکستانی فوج سے نفرت کرنے والے سیاستدانوں‘تجزیہ کاروں ‘ دانشوروں کے علاوہ فارن فنڈڈ این جی اوز کے سوا کسی کی خوش دلانہ‘ تائید و حمایت اس لئے نہیں مل سکی کہ ٹائمنگ کافی متنازع ہے۔ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے اتار چڑھائو پر گہری نظر رکھنے والے اہل دانش کو بخوبی اندازہ ہے کہ ایک طاقت ور ادارے کو مسلسل دیوار سے لگائے چلے جانے اور فوجی قیادت و رینک اینڈ فائل کے مورال پر ضربیں لگانے کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ ایک ایسا ادارہ جس نے حال ہی میں لیفٹیننٹ جنرل اور بریگیڈیئر رینک کے افسروں کو غیر ملکی آلہ کار بننے کے جرم میں سزا سنائی اور قوم کو بتایا کہ دشمن کہاں کہاں نقب زنی میں مصروف ہے۔ مقننہ ‘ انتظامیہ اور عدلیہ میں سے کون سا ادارہ سینہ تان کر یہ کہہ سکتا ہے کہ اُس نے اپنے اندرونی احتسابی نظام کے ذریعے کس سرکش کرپٹ‘ بیرونی آلہ کار فرد کو نشان عبرت بنایا‘ سب کے سب حاجی ثناء اللہ ہیں۔ موصوم عن الخطا۔ مجھے اندیشہ یہی ہے کہ دونوں فیصلوں کے سیاسی مضمرات قومی صحت کے لئے ضرر رساں ہوں گے اور اداروں میں بالادستی کی جنگ میں بری بھلی جمہوریت بلکہ صرف جمہوریت کیوں آزادی صحافت کہیں کچلی نہ جائے‘ مینڈھوں کی لڑائی میں گھاس کا نقصان۔ آزادی ذمہ داری کے بغیر وبال جان ہے اور بالادستی کا جنون انسان ہی کیا اداروں کو بھی پاتال میں اتار دیتا ہے۔ ماضی کا تجربہ تو یہی ہے مستقبل کا حال ِعلیم و خبیراللہ جانے۔