انتیس فروری کو دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کے بعد دس مارچ تک انٹراافغان مذاکرات کاآغاز ہوناتھا لیکن بدقسمتی سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔کیونکہ افغانستان کے دونوں فریقین (افغان حکومت اور افغان طالبان) نے ہوش کی بجائے جوش اور مصالحانہ روش اپنانے کی بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف مذاکرات شروع ہونے میں دوڈھائی مہینے کی تاخیر ہوئی جبکہ دوسرا اورسب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس ڈیڈلاک کے دوران فریقین کو بھی جانی نقصانات اٹھانے پڑے اورپہلے سے ستم رسیدہ افغان عوام نے بھی ناقابل تلافی جانی نقصان اٹھایا۔اس ڈیڈ لاک کی وجہ فریقین کے ایک دوسرے کی تحویل میں وہ قیدی بنے رہے جن کو دوحہ معاہدے کی رو سے رہائی ملنی تھی ۔لیکن ہوا یہ کہ مذکورہ معاہدے کے فقط بیس چوبیس گھنٹے بعد جہاں صدر اشرف غنی نے طالبان کے قیدیوں کو رہانہ کرنے کا بیان داغاتھا جس کے ردعمل میں طالبان نے پھر سے افغان فورسز کیخلاف جارحانہ کاروائیاں شروع کرنے کی دھمکی دی تھی ،یوں معاملہ سنبھلنے کی بجائے مزید خراب ہوا۔یہ سطور لکھتے وقت بھی فریقین کا دبائو بڑھانے کی خاطردونوں جانب سے ایک دوسرے پر حملوں کی خبریں آرہی ہیں۔البتہ اتوارسترہ مئی کو ایک اچھی خبر یہ سننے کو ملی کہ پچھلے صدارتی انتخابات کے نتائج پرتحفظات رکھنے والے سابق چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے صدر اشرف غنی سے صلح کے معاہدے پر دستخط کردیئے ۔معاہدے کی روسے عبداللہ عبداللہ طالبان کے ساتھ آنے والے دنوں میں امین مذاکرات کی قیادت کرسکیں گے۔ جبکہ ان کی ٹیم کے ارکان کابینہ میں بھی شامل ہوں گے۔اس مخاصمت کو مصالحت میں تبدیل کروانے والے خواہ سابق افغان صدرحامد کرزئی اور عبدالرب رسول سیاف جیسے رہنماہوں یا پھر امریکی نمائندہ برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زادمبارکبار کے مستحق ہیں۔ دوسری طرف سے صدر اشرف غنی کا اپنی کابینہ میں اپنے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ اور ان کے لوگوں کوجگہ دینے پر رضامندی کو ان کی فراخ دلی یاپھر مجبوری کہہ لیں، بہرحال ان کی یہ لچک افغانستان کے مستقبل کیلئے ایک نیک شگون ہے۔ دیکھا جائے توصدر اشرف غنی نے صوبہ جوزجان سے تعلق رکھنے والے اس بدنام زمانہ وارلارڈ عبدالرشید دوستم کو بھی فوج کے مارشل کا عہدہ دے دیا جن سے وہ خود بھی بدظن اور متنفرتھے ۔عبدالرشید دوستم کے پاس پچھلی حکومت میں بھی نائب صدر کاعہدہ تھاتاہم وسیع اختیارات نہ ملنے کی وجہ سے وہ صدرغنی سے کافی نالاں تھے ۔فرعونی ذہنیت کا حامل یہ جنگی سردار ایک طرف اپنے مخالفین کو گولی کے ذریعے سبق سکھانے میں مشہور ہے جبکہ دوسری طرف وہ بدترین اخلاقی گراوٹ کا بھی شکاررہاہے ۔ پچیس نومبردوہزار سولہ کوانہوں نے اپنی ہی جماعت جنبش پارٹی کے ایک سیاسی رہنمااورجوزجان صوبے کے سابق گورنر احمد ایشچی کوصرف اپنے اوپر تنقیدکرنے کے جرم میں اغواء کرکے تشددکانشانہ بنایاتھا۔ اغواء کا یہ واقعہ بُز کشی کے کھیل کے ایک ایونٹ کے دوران پیش آیاتھا۔یہاں تک کہاجاتاہے کہ دوستم نے اپنے اس سفید ریش مخالف پر اپنے گارڈزکے ذریعے بے تحاشاجسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ انہیں جنسی تشدد کابھی نشانہ بنایاتھا ۔بعد میں جب وہاں کے لوگوں نے احتجاج کے ذریعے ان کی گرفتاری کا مطالبہ شروع کیا تو وہ ترکی بھاگ گئے۔ دوستم کو اس نئے سیٹ اپ میں مارشل کا عہدہ دینے پر بہت سے لوگوں کی طرف سے صدر اشرف غنی پر تنقید ہو رہی ہے اور کہا جا رہاہے کہ جس بدنام زمانہ جنگی سردار کے خلاف عدالت میں مقدمات چل رہے ہیں ، اسے ایک اہم عہدے سے نوازنے کا آخر کیامطلب ہے؟اس حوالے سے پژواک نیوز کا ایک حالیہ سروے بتاتاہے کہ افغانستان کے اکیانوے فیصد لوگ رشید دوستم کو مارشل جیساعہدہ دینے کے حق میں نہیں تھے ۔ صدرغنی اور ڈاکٹر عبداللہ کے بیچ شراکت اقتدار کے معاہدے پر دستخط کے بعد اگلامرحلہ انتہائی اہمیت کا حامل اور حساس نوعیت کاہے بشرطیکہ اس سے پہلے رکاوٹیں دورہوں۔اس مرحلے میں افغان حکومت اور افغان طالبان دونوں کا بنیادی ہدف بین الافغان ڈائیلاگ کاہوگا۔ظاہر بات ہے کہ بین الافغان مذاکرات جنگ کے ساتھ شروع کیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی قیدیوں کی رہائی سے قبل ایساممکن ہے۔ یوںاس کیلئے ’’ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی‘‘ دونوں ناگزیرہے۔ دوحہ معاہدے کے بعد اگرچہ صدر غنی نے طالبان قیدیوں کو رہانہ کرنے کی بات کی تھی لیکن بعد میں انہوں نے یہ لچک دکھاتے ہوئے اب تک طالبان کے ایک ہزارقیدی رہاکیے ہیں جس کے بدلے میں طالبان نے بھی دوسوکے لگ بھگ افغان قیدیوں کو رہائی دلوائی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دوحہ معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات تک فریقین جنگ بندی پر بھی اتفاق کرتے لیکن بدقسمتی سے رمضان المبارک کے مہینے اور کورونا وبا کے کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔ افغان حکومت نے بھی طالبان پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔میرے خیال میں ان مذاکرات کی طرف بڑھنے کیلئے اب حکومت اور طالبان کیلئے سب سے اچھا اور مبارک موقع عیدالفطر کاہے ۔ان مبارک ایام کی خاطر فراخ دلی اورلچک کا مظاہرہ کرکے جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہیے ۔میں سمجھتاہوں کہ جنگ بندی ہی کے ذریعے فریقین ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں اور جنگ بندی ہی کی برکت سے دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کے عمل میں تیزی اور آسانی پیداہوسکتی ہے۔خداکرے کہ ایسا ہی ہواور افغان امن کی راہ میں جملہ رکاوٹیں دور اور امن ہمیشہ کیلئے بحال ہوجائے۔