بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہے جو کسی قانون اور ضابطے کے تحت کام کر رہا ہے یا یہ بزرگوں کا راجواڑا ہے جہاں مزاجِ یار ہی حرف آخر قرار پاتا ہے؟ چند روز قبل ایک کالم لکھا تھا کہ جناب ریکٹر سے حسن ظن متقاضی ہے ، وہ جواب دیں یا استعفیٰ دیں۔ اس کالم نے شاید مزاج یار کو مزید برہم کر دیا اور اب یونیورسٹی میں ایک ایسا اودھم مچا ہے کہ قانون ہی نہیں احساس اور اخلاقیات بھی منہ چھپائے بیٹھے ہیں کہ اس جامعہ میں زوال کا ساون یوں تو کبھی نہ برسا تھا۔ایک چیز مگر اچھی ہوئی کہ جس تحقیقاتی رپورٹ کو یونیورسٹی نے چھپا لیا تھا وہ رپورٹ اب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے طلب کر لی ہے۔روایت ہے کہ قائمہ کمیٹی کے روبرو جب جناب ریکٹر نے ’’میری یونیورسٹی ، میری یونیورسٹی‘‘ کی تکرار کی تو انہیں ایک فاضل رکن ایوان بالا نے یاد دلایا یہ ریاست کی یونیورسٹی ہے ، آپ کی نہیں۔ آپ صرف یہاں پر ایک ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ اہل سیاست کے وعدوں کا کچھ زیادہ بھروسا بھی نہیں ہوتا لیکن تحریک انصاف کے سینیٹر برادرم ذیشان خانزادہ نے اس معاملے کی تحقیقات کا وعدہ کیا ہے کہ اسلامی یونیورسٹی نے ’’ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی سکولز‘‘ کیسے کھول لیے ، یونیورسٹی کا تعلق ہائیر ایجوکیشن سے ہوتا ہے تو ایک یونیورسٹی کو سکول چلانے کی اجازت کب اور کیسے ملی اور اس کی فرنچائزز کتنے میں بیچی گئیں اور اب تک قریبا ایک ملین فی فرنچائز کے حساب سے دی گئی ان فرنچائزز کا آڈٹ ہوا یا نہیں اور نہیں ہوا تو اس کی وجوہات کیا ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے جس طریقے سے یونیورسٹی کی نمائندگی کی گئی اس سے بہت دکھ ہوا۔ یونیورسٹی کے ریکٹر ایک بات کر رہے تھے اور تدریسی عملے کی نمائندگی کرنے والے اساتذہ ان کی بات کو رد کر رہے تھے۔عہدوں میں اگر توقیر نہ رہے تو عہدوںسے چمٹ کر بیٹھ جانا کون سی سرفرازی ہوتی ہے۔ پھر ملک معراج خالد کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے لیکن کیا کروں ریکٹر کے منصب کو جو احترام اور توقیر ان کے دور میں ملا ، وہ منظر ابھی دھندلایا نہیں ہے۔ملک صاحب استعفی دے کر جا رہے تھے تو ساری یونیورسٹی کھڑی رو رہی تھی۔اور آج یہ عالم ہے ایوان بالا کی کمیٹی کے سامنے ریکٹر کو ان ہی کے ادارے کے اساتذہ چیلنج کر رہے ہوتے ہیں۔ریکٹر کا یہ منصب اتنا بے توقیر کیسے ہوا اور کس نے کیا؟ دل چسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے اساتذہ کے موقف کو تسلیم کر لیا اور ریکٹر کے موقف کو رد کرتے ہوئے یونیورسٹی آرڈی ننس کا ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کر دیا ہے۔ ساتھ ہی سینیٹ کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اس بل کو قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔یونیورسٹی اساتذہ اور کمیٹی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے سینیٹر زجس نکتے پر متفق ہیں جناب ریکٹر کو اس سے اتفاق نہیں کیوں کہ انہیں یہ تو گوارا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام آزاد کشمیر کے امیر مولانا سعید یوسف صاحب کو یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنر کا رکن بنا کر مولانا فضل الرحمن کی نظروں میں سرخرو ہو جائیں لیکن یہ گوارا نہیں کہ اس بورڈ میں یونیورسٹی اساتذہ کو شامل کر لیا جائے۔حالانکہ باقی یونیورسٹیوں میں یہ کام ہو چکا ہے۔ سینیٹ میں معاملات ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر اب یونیورسٹی میں ’’ آپریشن کلین اپ‘‘ میں تیزی لا ئی گئی ہے۔کچھ لوگوں کو منصب سے ہٹا دیا گیا ہے اور کچھ نئے لوگ تعینات کیے گئے ہیں۔ یونیورسٹی کے اہم ترین مناصب میں وائس پریزیڈنٹ اور ڈین ہوتے ہیں۔ اس وقت ان عہدوں پر جتنی تعیناتی ہوئی ہیں ، الا ماشاء اللہ ، غیر قانونی ہیں اور یونیورسٹی کے قوانین کو پامال کر کے کی گئی ہیں۔ یونیورسٹی آرڈی ننس کے باب سوم ( دفعہ 14) کے مطابق تمام وائس پریذیڈنٹس کے تعیناتی کا اختیار بورڈ آف گورنر کے پاس ہے، جو صدر جامعہ کی تجاویز پر یہ تعیناتی کرے گا۔ گویا ان کو ہٹانے کا اختیار بھی بورڈ آف گورنر ہی کے پاس ہوا۔اس وقت جتنے وائس پریذیڈنٹس کو ہٹا یا گیا ہے اور نئے تعینات ہوئے ہیں ، یہ سب بورڈ آف گورنر کی رضامندی کے بغیر ہوئے ہیں اور ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔پہلے یہ ہوتا تھا کہ فیصلہ کر کے اوپر لکھ دیا جاتا تھا In anticipation of approval اور بعد میں منظوری لے لی جاتی تھی لیکن نومبر 2020 میں بورڈ آف گورنر نے یہ اختیار ختم کر دیا۔کوئی ایمر جنسی بھی نہیں ہے کہ اضطرار میں فیصلے کرنے پڑے ہوں تو یہ اکھاڑ پچھاڑ کیوں اور کس قانون کے تحت ہو رہی ہے؟ ڈی جی شریعہ اکیڈمی ڈاکٹر محمد مشتاق کو ریکٹر نے حکم جاری کر کے منصب سے الگ کر دیا۔ڈاکٹر مشتاق کا تعارف شریعہ اکیڈمی نہیں ہے، شریعہ اکیڈمی کا تعارف ڈاکٹر مشتاق تھے۔ سادہ سا ایک سوال ہے: کیا یونیورسٹی قانون کے تحت ریکٹر کے پاس کوئی اختیار ہے کہ ڈائریکٹر جنرل کو ہٹا دے یایو ں نیا آدمی تعینات کر دے ؟ ریکٹر کے پاس تو یہ اختیار ہی نہیں ہے۔یاد رہے کہ ریکٹر نے یہ حکم In anticipation کیا تھا جسے بورڈ آف گورنر نومبر میں ختم کر چکا۔ تو کیا ریکٹر بورڈ آف گورنر کے احکام کو یوں پامال کر سکتا ہے؟مزید دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ایچ آر کے دفترنے ابھی چند روز پہلے نوٹیفیکیشن میں وضاحت کر دی کہ In anticipationمیں کیا گیا حکم غیر قانونی ہے۔ ڈاکٹر محمد منیر شعبہ قانون کے استاد ہیں۔ انٹر نیشنل لاء کا ایک بڑا نام۔شعبہ قانون کے سربراہ رہے ، ڈپٹی ڈین رہے اور یونیورسٹی کے نائب صدربھی۔ان سے تمام مناصب لے لیے گئے کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں جو ضمیر گروی رکھ کر عہدے کے طالب ہوں۔سینیئر کو جونیئر کے ماتحت بٹھا نے کا یہ بندو بست دیکھ کر یوں لگتا ہے یونیورسٹی میں منگول آ گئے ہیں اور’’ کموتان النچک‘‘ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔گردش دوراں کا فیصلہ مگر بہت واضح ہے کہ کوئی سمجھتا ہے وہ اہل علم کو انتظامی رعونت سے بے توقیر کر سکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ اقربا پروری کا یہ عالم ہے کہ ہائیر سٹڈیز اینڈ ریسرچ کے نئے نائب صدر احمد شجاع صاحب کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ یونیورسٹی کے مستقل ملازم ہی نہیں۔ان کو جب بھی نوزا گیا کنٹریکٹ پر نوازا گیا۔وہ اب بھی کنٹریکٹ پر ہیں اور انہیں مال غنیمت میں اتنا بڑامنصب دے دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر بنی بخش جمانی کو وی پی ایڈمن بنایا گیا ہے اور یونیورسٹی میں ان کے جنسی سیکنڈل پر احتجاج ہو رہا ہے کہ ایسے شخص کو یہ عہدہ کیسے دیا گیا۔ اس الزام کی نوعیت اتنی سنگین ہے کہ اکیڈمک سٹاف ایسو سی ایشن کے صدر ڈاکٹر ظفر اقبال نے صدر پاکستان اور چیئر مین ایچ ای سی کو ایک خط لکھ دیا ہے ۔اس خط کے مندرجات اتنے خوفناک ہیں، پڑھیں تو شرم آتی ہے۔کوئی باپ یہ خط پڑھ کر اپنی بیٹی کو کیسے یونیورسٹی بھیج سکے گا؟ سوال وہی ہے: یہ یونیورسٹی ہے یا بزرگوں کا راجواڑا؟کوئی ہے جو رہنمائی فرما سکے؟