اسلام آباد(خبر نگار،92 نیوزرپورٹ) سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں ایف آئی اے سے ضمنی رپورٹ طلب کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ کیس کو بند نہیں کیا جائے گا۔جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں جسٹس اعجا زالاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ایف آئی اے کو مبینہ طور پر پیسے لینے والے افراد کے بارے تمام شواہد فراہم کرنے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ اگر تفتیش کے نتیجے میں ان افراد کے حوالے سے کہیں شکوک پیدا ہوئے ہو تو وہ بھی ضمنی رپورٹ کا حصہ بنادیا جائے جبکہ وزارت دفاع کو بھی رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی گئی ۔ عدالت نے بنک ا کائونٹس چلانے والی کی نشاندہی کرنے اور جن لوگوں نے رقم وصول کرنے کی تردید کی ہیں ان کے نام رپورٹ میں شامل کرنے کی ہدایت کی اورآبزرویشن دی کہ بتایا جائے کہ جو ریکارڈ نہیں ملا وہ کس کے پاس ہونا چاہیے ۔ دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریما رکس دیے کہ ہم مرحلہ وار اس کیس کو آگے لے کر چلیں گے اور جس راستے پر ایف آئی اے لے کر جانا چاہتی ہے اس پر نہیں جائیں گے ۔ میرا خیال ہے کہ رقم لینے والوں کا پتا چل جائے گا،عدالت نے کیس کی مزید سماعت 22اپریل تک ملتوی کر دی ۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے لفظ دہشتگردی کی تعریف اور دہشتگردی کے مقدمات میں صلح ہونے سے متعلق مقدمات میں فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قانون میں موجود ابہام کو دور کرنا مقننہ کی ذمہ داری ہے ۔دوران سماعت عدالت نے انسداد دہشت گردی کے قانون میں موجود خامیوں کے بارے سوالات اٹھائے اور چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریما رکس دیے کہ ہم کسی قانون کی تشریح تو کرسکتے ہیں لیکن اس میں اضافہ نہیں کرسکتے ، مقننہ کو چاہیے کہ انسداد دہشت گردی قانون میں موجود سقم کو دور کریں ۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے دہشت گردی کی تعریف اور دہشت گردی کے مقدمے میں صلح سے متعلق متعدد مقدمات کو ایک ساتھ سنتے ہوئے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہاصلح عام فوجداری مقدمات میں ہوتی ہے ، عدالت نے دیکھنا یہ ہے کہ دہشت گردی کے مقدمے میں صلح ہو سکتی ہے ؟دہشت گردی کے مقدمات میں صلح نہیں ہو سکتی کیونکہ انسداد دہشتگردی کا قانون صلح کی اجازت نہیں دیتا،فریقین کے مابین صلح پر قانون کو بدلا نہیں جا سکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا انسداد دہشت گردی قانون میں ابہام ہی ابہام ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ انسداد دہشت گردی قانون کی وسیع تشریح کرنا پڑے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اقوام متحدہ ابھی تک دہشت گردی کی تعریف نہیں کر سکا،امریکہ بھی ابھی دہشت گردی کی تعریف سے متعلق حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکا،شور اٹھنے پر لوگوں کو چپ کرانے کیلئے مقدمہ فوجی عدالت اور دہشتگردی عدالت میں بھیج دیا جاتا ہے ،جب کسی بارے میں میڈیا پر بہت شور اٹھے تو مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت بھیج دیا جاتا ہے ، لگتا ہے یہ کوئی نفسیاتی معاملہ ہے ، خصوصی برتائو کیلئے خصوصی عدالت میں مقدمہ بھیج دیا جاتا ہے ، انشااﷲ ہم دہشت گردی کی تعریف کریں گے ، ہر سنگین جرم دہشت گردی نہیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا طاقت کے ذریعے اپنے خیالات دوسروں پر ٹھوسنا بھی دہشتگردی ہے ۔ عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد معاملے پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے قرار دیا کہ مناسب وقت پر صادرکردیا جائے گا۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے موبائل کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس کٹوتی پر از خود نوٹس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیاہے ۔ چیف جسٹس نے معاملے پر تین رکنی بینچ تشکیل دینے کی سفارش سمیت وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے تفصیلی جواب اور ٹیکسز کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔ مزید برآں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی اپیل پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے ۔جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آئینی پٹیشن پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔ رجسٹرار آفس کودرخواست پر قانون کے مطابق مقرر کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔