آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں کور کمانڈرز کانفرنس میںکورونا وبا سے نمٹنے کے حوالے سے ضروری تیاریوں اور اقدامات پر غور کیا گیا۔ آرمی چیف نے اس موقع پر ہدایت کی کہ دور دراز کے علاقوں میں امدادی سرگرمیاں تیز کی جائیں۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں بعض علاقوں میں فوج کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کی جاری کردہ تفصیل کے مطابق تین روز قبل کوئٹہ میں ناکافی حفاظتی کٹس پر احتجاج کرنے والے طبی عملے کو ضروری حفاظتی سامان بھجوانے کی ہدایت بھی کر دی گئی ہے۔ پاک فوج اور اس کی قیادت کی جنگی صورت حال میں درکار صلاحیت کی دنیا معترف ہے۔ پاک فوج نے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں اپنا موثر کردار تسلیم کرایا ہے۔ لڑنے کی صلاحیت کے ساتھ اس قابل فخر فوج کو جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ قدرتی آفات اور ہنگامی صورت حال میں اس کی استعداد اورافادیت ہے۔ مارچ کے مہینہ میں جب رپورٹس موصول ہونے لگیں کہ کورونا وائرس پاکستان کی آبادی کو نشانہ بنانے والا ہے تو عسکری قیادت نے سول اداروں اور حکومت کے شانہ بشانہ اس مہلک وبا سے مقابلہ کرنے کا عزم ظاہرکیا۔ 19مارچ کو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں پاک فوج کی جانب سے ہر ممکن مدد کا اعلان کیا۔میجر جنرل بابر افتخار نے اس موقع پر کہا کہ ’’پاک فوج کورونا کے انسداد کی خاطر پوری طرح تیار ہے‘‘۔ اس موقع پر ترجمان پاک فوج نے تینوں مسلح افواج کی طرف سے میسر خدمات کا ذکر کیا۔چند ہفتے قبل آرمی چیف نے فیصلہ کیا کہ پاک فوج کے جوان سے لے کر آرمی چیف کے عہدے تک کے تمام سپاہی اپنی تنخواہ میں سے معقول حصہ کورونا فنڈ میں جمع کرائیں گے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا نے ایک ماہ کی تنخواہ اس فنڈ میں جمع کرائی۔ ایس پی ڈی اور این سی اے کے ملازمین اور سائسندانوں نے بھی اپنی تنخواہوں کا کچھ حصہ عطیہ کیا۔ گریڈ 11سے 14تک سپیشل پے سکیل والے ملازمین نے 3دن کی تنخواہ دی۔ گریڈ 8سے 10تک کے ملازمین 2روز کی تنخواہ عطیہ کر چکے ہیں جبکہ گریڈ ایک سے 7کے ملازمین نے ایک دن کی تنخواہ عطیہ کی۔ ایک ایسی فوج جس نے گزشتہ برس اپنے بجٹ میں اضافہ قبول کرنے سے محض اس لئے معذرت کر لی کہ وہ ملک کی معاشی حالت سے واقف ہے اور اپنا کردار فقط سرحدوں پر دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے تک محدود رکھنے کی بجائے سیاسی قیادت کی ہر مشکل میں مدد کے لئے پرعزم ہے۔ کورونا ایک خطرناک وبا ہے۔ پاکستان میں اس کے متاثرین کی تعداد چار ہزار سے بڑھ چکی ہے جبکہ جاں بحق افراد کی تعداد 60ہو چکی ہے‘ حکومت نے کورونا سے نمٹنے کے لئے جو حکمت عملی ترتیب دی ہے اس میں لاک ڈائون اور مستحق افراد تک امداد کی ترسیل بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ عوام کی مالی حالت اس قدر اچھی نہیں کہ وہ مہینوں گھر کے اندر بیٹھے رہیں اور کھانے پینے کی اشیا کا وافرذ خیرہ ان کے پاس رہے۔ وزیر اعظم نے پہلے دن سے عوام کو خبردار کیا اور سماجی فاصلے کو احتیاطی تدبیر کے طور پر اپنانے پر زور دیا۔ وزیر اعظم عمران خان خود کئی روز تک بلا ناغہ قوم کو تازہ ترین صورت حال اور حکومتی اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے لوگوں کو گھروں میں رہنے کی اپیل کرتے رہے۔ بلا شبہ پاکستانی عوام دکھ اور مصیبت کی گھڑی میں اپنے بھائیوں کی مدد میں مثالی کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم بسا اوقات لاپرواہی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے صورت حال کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقا نے قوم کے سامنے وہ وجوہات رکھیں جن کی وجہ سے اٹلی اور سپین میں کورونا کو تباہی پھیلانے کا موقع ملا۔ آخر پاک فوج کو کہا گیا کہ وہ سول انتظامیہ کی مدد کے لئے آگے آئے۔ شہروں کے داخلی و خارجی مقامات پر فوجی جوانوں کی تعیناتی سے پولیس پر موجود دبائو میں کمی واقع ہوئی۔کورونا کے انسداد کے لئے سب سے موثر تدبیر لاک ڈائون رہی ہے۔ حکومت نے اس لاک ڈائون کے برے اثرات سے غریب اور دیہاڑی دار طبقات کو بچانے کے لئے رضا کارانہ کاموں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ بڑے شہروں میں کئی فلاحی تنظیمیں حکومت کی مدد کر رہی ہیں۔ بہت سی مخیر شخصیات سرگرم دکھائی دے رہی ہیں لیکن اب بھی کئی دور دراز کے علاقے کسی قسم کی امداد سے محروم ہیں۔ حال ہی میں کوئٹہ میں ڈاکٹروں نے حفاظتی کٹس نہ ملنے پر جو احتجاج کیا وہ اس لحاظ سے جائز تھا کہ کورونا سے لڑنے والوں کو یوں تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا۔حکومت کئی محاذوں پر بیک وقت لڑ رہی ہے۔ عسکری قیادت اس امر سے پوری طرح آگاہ ہے اس لئے آرمی چیف نے ناصرف کوئٹہ کے ڈاکٹروں کے لئے حفاظتی کٹس کا انتظام کیا بلکہ فوج کے طبی و امدادی عملے کو دور دراز کے علاقوں میں امداد پہنچانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی وبا نے انسان کو لاحق خطرات کی نوعیت بدل دی ہے۔ جدید اور ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک اس وبا کے سامنے جس طرح ڈھیر ہوئے ہیں اس میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ بطور قوم ہم خود کو نظم و ضبط کا پابند بنائیں‘ اپنے طرز عمل کو لاپرواہی اور غیر سنجیدگی سے پاک کریں۔ قوم کی تشکیل میں جو چیز سب سے ضروری ہوتی ہے وہ احساس ذمہ داری ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ امید بلاوجہ نہیں کہ پاکستانی عوام مشکل کی گھڑی سے مزید مضبوط قوم بن کر نکلیں گے۔