جس نظام کا ڈھانچہ جھوٹ اور بد دیانتی پر مبنی ہو وہ کیسے انصاف کرے گا، چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے یہ بات گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔اسی روز ایک مقدمے کی سماعت کے دوران انہوں نے ججوں کے احتساب کے آغاز کا اعلان بھی کیا اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ہمارا نظام عدل بر وقت فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔اگر کوئی فیصلہ ہو بھی جائے تو اسے ضبط تحریر میں لانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے لاہور ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں کی کارکردگی پر خصوصاً سوال اٹھائے۔یہ سوالات نئے نہیں ہیں اور یہ ایسی حقیقتیں ہیں جو کئی دہائیوں سے ہمارا منہ چڑھارہی ہیں ۔سستا اور فوری انصاف آپکی دہلیز پر، جیسے نعرے حکمرانوں نے بہت لگائے لیکن نہ تو حکمران اور نہ ہی عدلیہ اس بنیادی حق کی بھرپور طریقے سے حفاظت کر پائی۔ جب جسٹس افتخار چوہدری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو جوڈیشل ایکٹوازم اپنی انتہا کو چھو رہا تھا۔ جن لوگوں کو آج کے چیف جسٹس کے دوروں اور مسائل کے سو موٹو ایکشن لینے پر اعتراض ہے، وہ ایک خبر چھاپتے تھے اس یقین کے ساتھ کہ جسٹس افتخار چوہدری صبح ضرور نوٹس لیں گے اور یہ ہو جاتا تھا۔لیکن افتخار چوہدری قوم سے اتنا زیادہ افتخار پانے کے بعد اپنی ذات کے اسیر رہے اور عدلیہ کی بہتری اور انصاف کی بر وقت فراہمی کے بنیادی کام کو آگے بڑھانے یا بہتر بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس سارے عمل میں کسی ایک ادارے یا شخصیت کو ذمہ دار ٹھہرانا بھی مناسب نہیں ، جہاں افتخار چوہدری ناکام رہے وہاں ہماری پارلیمنٹ ، معاشرہ اوروکلاء برادری بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ سب سے بنیادی کام پارلیمنٹ کا ہے کہ وہ ایسے قوانین بنائے یا موجودہ قانون کو بہتر کرے جو انصاف کے تقاضوں کو بر وقت پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔اس سلسلہ میں کچھ کام تو ہوا لیکن نہ ہونے کے برابر۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی نے ماتحت عدلیہ میں دائر ہونے والے مقدمات کی سماعت اور فیصلے کے لئے ایک مدت مقرر کی، اسی طرح سے دوسری صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی بھی اپنے اپنے دائرہ کار میں اس قسم کا قانون بنا سکتی ہیں۔اس کے ساتھ اس قانون پر عملدرآمد کیلئے ہائیکورٹس کو بھی پابند کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ اسکے بغیر یہ قانون بھی بے عملی کا شکار ہو جائے گا جس طرح نیب کا قانون بے اثر ہے۔ انکوائری، تحقیقات اور ریفرنس فائل کرنے سے لیکر عدالت میں ٹرائل تک کی مدت مخصوص کی گئی ہے لیکن مجال ہے کسی ایک مقدمے میں بھی تمام مراحل اس ڈیڈ لائن کے مطابق طے ہوئے ہوں۔ کرپشن اگر سب سے بڑا مسئلہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔مجھے 1984ء سے 1987ء تک قانون کی ماتحت عدلیہ میں پریکٹس کا بطور وکیل تجربہ ہوا۔ جو کچھ میرے مشاہدے یا تجربے میں آیاوہ بہت ہی مایوس کن ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ جو کچھ اس وقت ماتحت عدلیہ میں ہو رہا تھا سوائے مرضی کی تاریخ اور فیصلہ لینے کے ریٹ بڑھنے کے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ یا کوئی فرق نظر آتا ہے تو یہ کہ ہمارے وکلاء عدلیہ بحالی تحریک کے بعدعدلیہ سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں ۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ بااثر اشرافیہ کا ہے جو بڑی عدالتوں سے ایک فون کال پر اپنی مرضی کے فیصلے لے لیتی ہیں۔ ڈکٹیٹروں کے دور کی تو بات ہی اور ہے۔ وہ تو عدالت سے جو نہیں مانگتے وہ بھی انہیں مل جاتا ہے جیسا کہ جنرل مشرف کے ٹیک اوور مقدمے میں جسٹس ارشاد حسن اور انکے ساتھیوں نے کیا تھا کہ صرف ٹیک اوور پر قانونی مہر ثبت کرنے کی درخواست تھی لیکن عدالت نے جنرل مشرف کو بن مانگے تین سال کے لئے آئین میں ترمیم کی اجازت دے دی۔اس دور میں بھی جہاں ہم ملک کے وزیر اعظم کی نااہلی کو ایک انہونی کہتے ہیں کہ ہماری عدالتیں با اثر وزیر اعظم کو بری تو کر سکتی تھیں لیکن سزا کا کوئی تصور نہیں تھا،ایک اور ہونی ہو رہی ہے۔پراپرٹی ٹائیکون جیسے لوگوں کا اب بھی طوطی بول رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے واضح فیصلوں کے باوجود وہ ہر قسم کا غیر قانونی قبضہ اور تعمیرات کرتے چلے جا رہے ہیں۔ انتظامیہ اسکی جیب کی گھڑی اور پولیس ہاتھ کی چھڑی بنی ہوئی ہے۔جس جگہ قبضہ کرنا چاہے کر لے، زمین سرکاری ہے یا پرائیویٹ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سرکاری ہے تو بقول پراپرٹی ٹائیکون فائل کو پہیے لگا دیئے جاتے ہیں اور پرائیویٹ ہے تو نہ بیچنے والے کو پہیے لگا کر اگلے جہان رخصت کر دیا جاتا ہے۔ پراپرٹی ٹائیکون پر زمینوں پر قبضے کے ہی نہیں بلکہ لوگوں کے قتل کے مقدمات بھی ہیں۔ قبضے کی صورت میں کتنے لوگوں کا معاشی قتل کیا گیا ہے اسکا تو کوئی حساب ہی نہیں۔اور موصوف یہ سمجھتے ہیں کہ خیرات کرنے سے انکے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔ تیسرا اہم جزو نظام انصاف کا وکلاء ہیں۔ مجھے ان وکلاء پر کوئی اعتراض نہیں جو پراپرٹی ٹائیکون یا ایسی کسی بھی با اثر شخصیت کا مقدمہ لڑتے ہیں۔لیکن اصول، قانون اور پھر ضمیر نامی چیز بھی ہوتی ہے۔مقدمہ لڑنا اپنی جگہ لیکن یہ بھی ظلم ہے کہ اپنی سنیارٹی اور پوزیشن کا استعمال ان مظلوموں کے خلاف کیاجاتا ہے جن کو صدیوں کی ملکیتی زمین ایک خاص شخصیت کو دینے کے لئے بے گھر کر دیا جاتا ہے۔ ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین کاکوڑیوں کے بھائو خریدی ہوئی زمین کے عوض تبادلہ کیس میں سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے اور اب اسکو لاگو کرنے کے لئے عملدرآمد بنچ بن رہا ہے۔ اس بارے میں ایک بہت نامی گرامی وکیل کا تبصرہ سن رہا تھا جو اصول اور قانون کی بات کرتے ہیں اور عدلیہ کے حالیہ فیصلوں کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ لیکن بحریہ ٹائون کے مقدمے میں انکا نقطہء نظر قطعاً مختلف تھا۔ موصوف نے فرمایا کہ عدلیہ نے فیصلہ تو قانون کے مطابق کیا ہے لیکن جس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہو سکے وہ بھی غیر قانونی ہو تا ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا