اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں جنوری میں 42 ہزار 500 کیس زیر التوا تھے ، اڑھائی ہزار مقدمات کم ہوگئے ہیں،انشاء اﷲ یہ زیر التوا مقدمات میں اور بھی کمی آئے گی،ٹکرے ٹکرے کر کے کیس چلانا مناسب عمل نہیں ،دلائل سنیں اور فیصلہ کر دیں، محنت سے کام کریں اﷲ بہت اجر دے گا، کسی سے گھبرانا نہیں ، ڈرنا نہیں۔ پیر کو یہاں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فوری اور سستے انصاف کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہائی کورٹ میں نے 1998ء میں جج کا منصب سنبھالا۔ انہوں نے کہاکہ میرے ساتھ8 ججز ہائی کورٹ میں آئے تھے ، بہت جلد ہمیں جنون گروپ ججز کہا جانے لگا۔چیف جسٹس نے کہاکہ پہلے دن سے اپنی عدالت میں لگے تمام کیسز کا فیصلہ کر کے اٹھتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ میری عدالت میں کیسز کارروائی کیلئے نہیں فیصلے کیلئے لگتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں عدالت میں فیصلہ کرنا چا ہیے صرف دن نہیں گزارنا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ میں نے کئی بار وکلا کو کہا کہ کیس ملتوی نہیں کرونگا، خدانخواستہ وکیل مر جائے تب کیس ملتوی ہو سکتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ کیس کے دلائل کورٹ میں بیٹھے سب لوگ سنتے ہیں، جج کا کام دلائل سن کر فیصلہ کرنا ہے کیس ملتوی کرنا نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہی چیز جج کو بقیہ لوگوں سے منفرد کرتی ہے ، اگر کوئی جج فیصلہ نہیں کر رہا تو لوگ اس کی عزت کیوں کرینگے ؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ صرف 41کرمنلز اپیلیں اسلام آباد میں زیر التوا رہ گئی ہیں، لاہور میں 91، پشاور میں5 کرمنل اپیلیں زیر التوا ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کراچی اور پشاور میں کوئی کرمنل اپیل زیر التوا نہیں ، زیر التوا اپیلیں بھی بہت جلد نمٹا دی جا ئینگی۔ انہوں نے کہاکہ اﷲ نے ہمارے کندھوں پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے ، ہمیں کسی بھی دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ انصاف اﷲ نے آپ کے وسیلے سے فرمانا ہے ، اﷲ قرآن میں فرماتا ہے وہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا آپ سے محبت کرے تو پھر کس چیز کا ڈر ہے ، میں نے بہت سے ایسے کیسز کے فیصلے بھی کئے کہ جن میںمجھے جان کا خطرہ بھی تھا ۔چیف جسٹس نے کہاکہ اﷲ کو حاضر و ناظر جان کر جو صحیح لگا وہ فیصلہ کر دیا۔ انہوں نے کہاکہ بہت سے مقدمات میں مذہبی معاملات بھی سامنے آئے ، میں نے جو بھی فیصلے کیے مجھے عزت ملی۔چیف جسٹس نے کہاکہ بہت سے لوگ عدلیہ کی آزادی سے متعلق لکھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وکلاء ،سائلین کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ انکے پاس کیس کیلئے مقررہ وقت اتنا ہے ، دونوں فریقین کو بلا کر ان سے کیس سے متعلق ایک معیاد مقرر ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ عدالت پارٹی کے پیچھے نہیں بھاگے گی، عدالت ایک سہولت دیگی۔حیات علی شاہ ڈائریکٹر جنرل فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جج کا شعبہ جنون کے ساتھ چلتا ہے ، جنون ہے تو ججی کریں جنون نہیں تو پھرصرف نوکری کریں۔حیات علی شاہ نے کہاکہ قانون میں ترمیم کے بغیر ماڈل کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا، ماڈل کورٹس چیف جسٹس کی سوچ ہے ۔حیات علی شاہ نے کہاکہ ہم سمجھتے تھے کہ ماڈل کورٹس نہیں چل سکتیں، چیف جسٹس کہتے تھے ماڈل کورٹ کا آئیڈیا قابل عمل ہے ۔حیات علی شاہ نے کہاکہ ماڈل کورٹس کے ججز چیتے جج ہیں ، حیات علی شاہ نے کہاکہ چیف جسٹس کے بعد بھی ماڈل کورٹس چلتی رہیں گی۔