ہم ان سے اس طرح مخاطب نہیں ہوسکتے جس طرح آرمینیا کے شاعر تومانین نے آسمان میں بھٹکتے ہوئے ایک پرندے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا۔ ’’الوداع! اے پیارے پرندے تم جہاں جاؤ گے بہار کی ہواؤں کے ساتھ آخر لوٹ آؤ گے‘‘ ہم جانتے ہیں کہ وہ جہاں گیا ہے؛ وہاں سے کبھی بھی واپس لوٹ کو نہیں آئے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس آسمان کے نیچے اور اس دھرتی کے اوپر ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے۔ مگر وہ اس عام فرق سے زیادہ مختلف اور بہت خاص تھا۔اس جیسے سیاستدان کے لیے سندھ کو بہت انتظار کرنا پڑے گا۔ ایسے لوگ ہر روز ہر ماہ اور ہر سال میں جنم نہیں لیتے۔ وہ شخص جس نے روس اور چین کے انقلابی ناولوں کو پڑھ کر سیاسی جدوجہد کی ابتدا کی۔ وہ شخص بذات خود بھی ان ناولوں کا کردار بن گیا۔ اس کی زندگی کاایک پہلو چین کے مشہور انقلابی ناول ’’سرخ لالٹین‘‘ اور اس کی زندگی کا دوسرا پہلو روس کے انقلابی ناول ’’دارو رسن کی آزمائش‘‘ اور اس کی زندگی کا تیسرا پہلو ترگنیف کے ناول ’’بہار کے جھونکے‘‘ کے مرکزی کردار ’’سانن‘‘ جیسا تھا۔اس کے بارے میں بہت متضاد قسم کی باتیں بولی جاتی تھیں ۔ اپنے حامیوں اور پرستاروں کی نظر میں وہ ماؤ زے تنگ کا دوسرا جنم تھا مگر اپنے مخالفین کی نظر میں وہ پنجاب کا ایجنٹ تھا۔ وہ کیسا ایجنٹ تھا جس نے اپنے زندگی کے گیارہ قیمتی برس قید میں کاٹے۔ وہ پانچ برس تو کوٹ لکھپت کا قیدی رہا۔ اس نے اپنے وہ اسیری والے شب و روز اپنی جیل ڈائری ’’کوٹ لکھپت کا قیدی‘‘ میں تحریر کئے ہیں۔ اس ڈائری میں سندھ کے سیاسی حالات اور پاکستان پر امڈ آنے والے خطرات کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی زندگی کے تجربات اور مشاہدات بھی شامل ہیں۔ ان کی وہ ڈائری بھی ان کی ذات کی طرح بہت سارے رخ پیش کرتی ہے مگر اس ڈائری کو پڑھتے ہوئے میں جس راستے پر کافی دیر تک چلتا رہتا ہوں اس کا راستہ ہے پنجابی اور سرائیکی صوفیاء کرام اور عوامی شاعروں کے وہ اشعار جن کو پڑھ کر بھولی محبت کے بھرے ہوئے زخم پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک رومانوی شخص تھے۔ ان کی رومانوی شخصیت کا ثبوت ان کی پانچ شادیاں نہیں تھیں وہ زندگی کے ہر پہلو میں رومانوی تھا۔ وہ شخص جس کا جنم بہت غریب خاندان میں ہوا۔ اس شخص نے معاشی طور پر غربت اور معاشرتی طور پر ظالمانہ رویوں کے باوجود پوری زندگی بغاوت کے ساتھ گزاری۔ اس کے بارے میں بہت ساری باتیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی مگر ہمیں ان کی سیاست کے اس پہلو کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئیے کہ انہوں نے اپنے سیاسی زندگی میں ہر بڑی قوت کے ساتھ بغاوت کی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ وہ صرف جماعت اسلامی کا نہیں بلکہ ایک سوشلسٹ ہوتے ہوئے بھی کمیونسٹ پارٹی کا مخالف تھا۔ اس کو پاکستان میں آخر تک سندھی قوم پرست کے طور پر جانا جاتا تھا مگر انہوںنے جدید سندھی قوم پرستی کے بانی جی ایم سید اور ان کی جیئے سندھ تحریک کے خلاف فکری اور عملی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے دوراں وہ خطرات سے بھی گزرے مگر انہوںنے اس کی کبھی کوئی پروا نہیں کی۔ جب وہ جوان تھے اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کا جادو سر چڑھ کے بولتا تھا مگر انہوں نے بھٹو کے خلاف سیاست کی۔ وہ بھٹو کے شدید مخالف تھے انہیں اپنی زباں اور اپنی زباں میں تخلیق ہونے والے ادب سے عشق تھا۔ وہ خود بھی ادیب تھے۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’دیکھ کر سرخ گلاب‘‘ سندھی ادب میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ ہم ان کے بارے میں بات کر رہے تھے کہ اب ان جیسے کردار کو دیکھنے کے لیے ہماری آنکھیں برسوں تک ترستی رہیں گی۔ ان کے بارے میں اس ملک میں کسی کی کیسی بھی رائے ہوسکتی ہے۔ میں ان سارے خیالات کا احترام کرتے ہوئے بھی اپنے قلم کو اس حقیقت کو بیان کرنے سے نہیں روک پا رہا کہ ان کا شمار ایسی شخصیات میں کیا جا سکتا ہے جن کے لیے علامہ اقبال نے لکھا ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا وہ سندھ کے اجڑے ہوئے چمن کا دیدہ ور تھا۔ اس کو صرف سندھ تک محدود رکھنا نہ صرف اس شخص بلکہ اس ملک سے بھی زیادتی ہے۔ اس کی شخصیت کو صرف سندھ تک محدود کرنا مناسب نہیں ہے۔ ان کا شمار پاکستان کی نامور شخصیات میں ہونا چاہئیے۔ وہ شخص جس نے جنرل ضیاء کی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جس نے کوٹ لکھپت جیل میں جوانمردی سے قید کاٹی اور جب وہ رہا ہوا تب جیل سے وہ ہزاروں کتابوں کے ساتھ باہر آئے۔ وہ ہمیشہ مطالعہ کرنے میں مصروف رہنے والے شخص تھے۔ وہ تاریخ اور فلسفے کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے بہت اچھے قاری تھے۔ انہوں نے ادب میں ہمیشہ مزاحمت کا پہلو ابھارنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ایک بار اردو ادیب انور سن رائے نے انہیں اپنی کتاب ’’چیخ‘‘ پیش کی۔ اس کتاب کے بارے میں ہر پہلو سے خیالات کا اظہار کرنے کے بعد انہوں نے آخر میں کہا تھا کہ اس کتاب کا نام چیخ ہے۔ اگر آپ کو چیخ سننی ہے تو سندھی ادب پڑھیں اس کتاب میں تو صرف ایک کراہ ہے۔ وہ ایک اعلی درجے کے نقاد تھے۔ ان کی خاص خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے مخالف کی علمی حیثیت سے انکار نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے میں اس نکتہ نظر کا بہت مخالف ہوں مگر اس نکتہ نظر میں موجود علم کی حیثیت سے انکار کرنا منافقت والا عمل ہوگا۔ وہ علم دوست اور انقلاب دوست شخص تھے۔ انہیں پوری دنیا اور پورے ملک کے مظلوموں سے ہمدردی تھی مگر اپنے ہم زباں مظلوموں کے ساتھ ان کی بہت محبت تھی۔ اس کا ایک سبب ان کی سندھ کی ثقافت سے جذباتی وابستگی بھی تھی۔انہوں نے اپنی مشکل زندگی میں بہت سارے کارنامے سرانجام دیے۔ ان کا ایک کارنامہ یہ تھا کہ وہ سندھ میں سارے امیر اور طاقتور لوگوں کی مخالفت کے باوجود انہوں نے اپنے قدم کامیابی کے ساتھ جمائے۔ ان کا دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے سندھ کے غریب کسانوں کی سیاسی تعلیم کی اور اس کی وجہ سے سندھ کے ان دیہاتوں میں جہاں بجلی کی سہولت نہیں تھی وہاں ان کی پارٹی کے لوگ سیاسی اسٹڈی سرکل چلاتے تھے۔ ان کا تیسرا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے آخری دم تک اپنی سیاست کے ساتھ کتاب اور قلم کا رشتہ جوڑے رکھا۔ وہ واحد سیاستدان تھے جن کا نام آنے سے ذہن میں علم ادب کتاب اور سیاسی شعور کے تصورات ابھر کر آتے تھے۔ ان کا پانچواں اور بہت بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے سیاست میں سندھ کی عورتوں کی شمولیت کونہ صرف یقینی بنایا بلکہ ان کو وہ اعتماد بھی دیا کہ وہ اسٹیج پر آئیں اور بے خوفی سے اپنا نکتہ نظر پیش کریں۔ عورتوں کی اتنی بڑی تنظیم سندھ میں تو کیا کسی نے پاکستان میں بھی نہیں بنائی۔ ان عورتوں کی اکثریت غریب طبقات سے تھی۔ وہ اپنی تمام تر جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود وہ منزل حاصل نہیں کر پائے جس منزل کے بار ے میں ان کا خیال تھا کہ منزل کا حصول بری چیز نہیں ہوتی بلکہ منزل کے لیے مسلسل چلنا بڑی بات ہے۔ اس سلسلے میں وہ شاہ لطیف کے اشعار بھی بیان کرتے تھے۔ وہ منطق کے ماہر تھے اور ان کو بولنے کا فن بخوبی آتا تھا مگر ان ساری باتوں کے باوجود ان کے بارے میں سوچتے اور لکھتے ہوئے جو کسک محسوس ہوتی ہے وہ کسک یہ ہے کہ انہوں نے دوسرے درجے کی وہ قیادت پیدا نہیں کی جو ان کے مقصد کو آگے بڑھائے۔ وہ بڑے اعلی درجے کے مفکر اور مقرر تھے۔ ان سے ایک گھنٹے کی ملاقات ایک ماہ کے مطالعے کے برابر محسوس ہوتی تھی۔ مگر وہ جس درجے کے شخص تھے اپنی سیاسی تحریک کو جاری رکھنے کے سلسلے میں قائدانہ صلاحیتوں کے مالک کارکنوں کی تخلیق نہیں کرپائے۔ اس طرح وہ بھی دنیا کے ان مشہور لوگوں میں شامل ہوگئے جن کے بعد ان کی تحریک اس طرح بکھر گئی جس طرح موسم بدلنے کے بعد پت جھڑ میں درختوں کے پتے ہواؤں کے دوش پر اڑ کر بکھر جاتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ اتنے سارے علم اور اتنی ساری محبت کے باوجود اس شخص کی میت کے ساتھ چلنے والے وہ عام سے نوجوان تھے جو ان کے آدرشوں کا تذکرہ تو کر سکتے ہیں مگر ان کے حاصلات کے لیے فکری اور سیاسی جدوجہد نہیں کرسکتے۔ وہ صرف اتنا ہی کرسکتے ہیں کہ جب بھی ان کی برسی منائی جائے گی وہ بلند آواز سے نعرہ لگائیں گے: ’’رہبر کون سندھ کا رسول بخش پلیجو!!‘‘