شیخ چلی کے سر پہ رکھے انڈے ، جن سے بچے نکلنے تھے، انہیں بڑا ہوکرحسب توفیق مرغا بن کر اذان دینی اور حرم میں دندناتا پھرنا تھا یا مرغی بن کر مزید انڈے دینے تھے جن سے پھر بچے نکلنے اور گردشی قرضوں کی صورت بڑھتے چلے جانے تھے، کبھی گر کر نہ ٹوٹتے اگر وہ فرضی خوشحالی کے خیال خوش کن سے جوش میں آکر سر نہ ہلا بیٹھتے کیونکہ منصوبہ برا نہیں تھا۔عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قو م کو گھر والے سمجھ کر دل کی بات کربیٹھتے ہیں بلکہ وہ باتیں بھی جو گھر والوں سے بھی نہیں کی جاتیں۔بھلا کیا ضرورت تھی بھری بزم میں انڈوں مرغیوں ، چوزوں کٹوں اور بھینس کی عفت مآب بچیوں کے متعلق اظہار خیال کرنے کی؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟کیا ٹھٹھے اڑانے والے بزرجمہرنہیں جانتے کہ معاشی بدحالی کی شکار قوم کو انڈے بیچنے کا مشورہ، کیک کھانے کے مشورے سے بہرحال بہتر ہے۔اس فقرے کی تشریح ازروئے انقلاب فرانس کرنی پڑے گی یا عقل مندوں کو اشارہ کافی ہے؟ عظیم ماوزے تنگ نے چین کی زرعی معیشت کو صنعتی معیشت میں بدلنے کے لئے گریٹ لیپ فارورڈ انقلاب برپا کیا اور چین کے ہر گھر کے عقب میں ایک چھوٹی موٹی اسٹیل مل کھل گئی۔ یہ وہ بھٹیاں تھیں جن میں ہر وہ شے جھونک کر پگھلائی اور لوہے میں ڈھا ل دی گئی جس میں لوہے کی معمولی سی مقدار بھی موجود تھی۔گھر کے برتنوں سے لے کر کاشتکاری کے سامان تک۔لوہے کی میزوں اور کرسیوں سے سواری کی سائیکلوں تک۔ان بھٹیوں کی آگ بھڑکائے رکھنے کے لئے ہر قسم کا ایندھن استعمال کیا گیا۔ کوئلے سے لکڑی تک اور جو کچھ بھی جلایا جاسکتا ہو۔ حتی کہ لکڑی کے کفن بھی۔ کسانوں نے اپنے ہل اور کاشتکاری کے اوزار بھی ان بھٹیوں میںجھونک دیئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس صنعتی انقلاب کا نتیجہ بدترین قحط کی صورت میں نکلا۔لیکن یہ کہنا قرین انصاف نہ ہوگا کہ گھریلو بھٹیوں میں لوہا بنانا اس کی واحد وجہ تھی۔ غلط معاشی پالیسیوں اور لبرل بلکہ فطری مارکیٹ کو غیر فطری انداز میں قابو میں رکھنا اس کی اصل وجہ تھی۔ کسانوںکے پاس زراعت کے لئے نہ وقت بچا تھا نہ ماوزے تنگ کا انقلاب انہیں اسکی اجازت ہی دے رہا تھا۔اجتماعی زراعت لازمی اور نجی ملکیت میں کاشتکاری جرم تھی اور ایسا کرنے والے کو باغی قرار دیا جاتا تھا۔ بغاوت کی سزا موت تھی۔ ان گھریلو بھٹیوں میں جو لوہا بنایا جاتا تھا وہ اسٹیل نہیں تھا۔ اس میں کاربن اور سلفر کی مقدار ضرورت سے زیادہ تھی۔اسے صاف کرنے کے لئے بڑے پلانٹ کی ضرورت تھی یہ کسی کسان کے بس کی بات نہیں تھی لہذہ اس تحریک کے نتائج مختلف علاقوں میں مختلف ہوئے۔جن علاقوں میں اسٹیل بنانے کے کاریگر اور سہولیات موجود تھیں اور صدیوں سے اسٹیل بنانے کے روایتی ماہر ین کے تجربات سے فائدہ اٹھایا گیا، انہیں فائدہ ہوا۔ وہ گھریلو بھٹیوں سے ملاوٹ زدہ گھٹیا لوہا سستے نرخوں پہ خریدتے اور اپنی ملوں میں صاف کر کے مارکیٹ بھیج دیتے۔جو صدیوں سے زرعی علاقے تھے وہاں یہ تحریک ناکام رہی اور کسان نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔اس کے باوجود آج بھی چین میں یہ گھریلو بھٹیاں موجود ہیں اور کیا آپ کو علم ہے کہ چین دنیا بھر کی ضرورت کا پچاس فیصد لوہا پیدا اور برآمد کرتا ہے۔یہ چین کی اتنی بڑی ایکسپورٹ ہے کہ حالیہ امریکہ چین تجارتی جنگ میںاس صنعت پہ سب سے زیادہ امپور ٹ ٹیرف لگایاگیا جو پچیس فیصد تھا۔ چین کی لوہے اور ایلومینم کی برآمدات نے باقی دنیا کی اسٹیل کی صنعت کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کردیا۔چین سے لوہے کی امپورٹ پہ ٹیرف عائد کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکہ کی اپنی لوہے کی صنعت کی بحالی چاہتے ہیں جسے چین کی لوہے کی صنعت نے تقریباً تباہ کردیا ہے۔اس بے پناہ پیداواری صلاحیت اور دنیا بھر میں امریکہ کے بعد برامدآت کے حوالے سے دوسرا بڑا ملک ہونے کے باوجود لوہا چین کی سب سے بڑی برآمدی جنس نہیں ہے۔چین اگر دنیا کو سالانہ ستاون ارب ڈالر کا خام لوہا اور اس کی مصنوعات برآمد کرتا ہے تو ساتھ ہی پانچ سوستاون ارب ڈالرکی الیکٹریکل مصنوعات دنیا بھر کی مارکیٹ میں بیچ ڈالتا ہے جن کا ایک ایک پرزہ مقامی طور پہ تیار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنی زراعت سے بھی غافل نہیں ہے اور کاٹن ،چاول، چائے ،آلو اور سویابین سمیت تمام بنیادی اجناس برآمد کرتا ہے۔سویابین تو امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں چین کا بہت بڑا ہتھیار رہا ہے کیونکہ اس کی سب سے زیادہ کھپت امریکہ میں ہے۔چین کی سال بھر کی برآمدات اگر اس کی تمام آبادی پہ تقسیم کی جائیں تو فی چینی پندرہ سوڈالر بنتے ہیں۔کل ملا کر پچاس نہایت چھوٹی صنعتیں ہیں جو چین کی بے پناہ اور تیز رفتار ترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ چھوٹی صنعتوں کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں انویسٹمنٹ کم ہوتی ہے، زیادہ افرادی قوت کی ضرورت نہیں ہوتی اور تھوڑی سی تربیت کے بعد ایک عام انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ اپنا گھر بھی چلا سکے، دوسروں کو روزگار فراہم کرسکے اور اس کی بنائی مصنوعات ملکی اور غیرملکی مارکیٹ میں فروخت ہوکر معاشی ترقی کا باعث بن سکیں۔پاکستان چونکہ بنیادی طور پہ زرعی ملک تھا اور اس کا نہری نظام دنیا بھر میں مثال تھا تو ہم دنیا بھر کو بہترین چاول اور کپاس ایکسپورٹ کرتے رہے۔ ایوب خان کے صنعتی انقلاب نے وہی کیا جو ماوزے تونگ کے آمرانہ کمیونسٹ انقلاب نے کیا پھر بھی ضیاء الحق کے زمانے تک ہماری زراعت کا حال بہتر تھا۔ ڈیم نہ بنانے، پانی کی قدرتی کمی، زرعی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے اس میدان میں تو ہم نے دھول اڑادی۔اب ہمیں آلو اور پیاز بھی بھار ت سے منگوانی پڑتی ہے ۔ عمران خان کے انڈوں کٹوں اور بھینس کی بچی کا مذاق بنانے والوں کو شاید علم نہیں کہ پاکستان کی پولٹری انڈسٹری ایک نہایت منظم صنعت ہے اور دنیا بھر میں اس دیہی صنعت کو بالخصوص ایک باقاعدہ باعزت مقام حاصل ہے لیکن پاکستان میں اس پہ خاطر خواہ توجہ اب تک نہیں دی گئی۔ پاکستان میں دالیں اور دانے برآمد کرنے والے کسانوں نے ساتھ ہی پولٹری فارمنگ بھی شروع کردی ہے اور ایسی باقاعدہ کمپنیوں کی تعداد اب تک ستر سے تجاوز کرچکی ہے جنہیں یہ کسان اور مقامی تاجر پولٹری مصنوعات مہیا کررہے ہیں لیکن وہ یہ مصنوعات اس لئے قابل ذکر مقدا ر میں برآمدنہیں کر پارہے کہ کوئی مرکزی سرٹیفیکیشن سسٹم موجود نہیں ۔پاکستان کے دیسی انڈوں کی مانگ دنیا بھر میں ہے لیکن یہی معیار کا مسئلہ اڑچن بنا ہوا ہے۔ پاکستان کوایک فوقیت اس ضمن میں یہ بھی حاصل ہے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور دنیا بھر میں اسلامی ملکوں کی حلال مارکیٹ اس کے لئے کھلی ہوئی ہے۔ یہی انڈے کٹے اور مرغیاں مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ پالے پوسے اور برامد کئے جائیں تو پاکستان کی معیشت میں قابل قدر کردار ادا کرکے ٹھٹے بازوں کا منہ بند کرسکتے ہیں۔