معزز قارئین!۔ 1812ء سے "Troy" سے "New York" کے درمیان گوشت کی ترسیل کے منتظم "Meat Packer" ( گوشت کے بنڈل باندھنے والے) "Samuel Wilson" کے نام پر۔ امریکہ کا نام ۔ "Uncle Sam" (اردو میں چچا سامؔ) پڑ گیا تھا ۔ غیر ترقی یافتہ ملکوں کے حکمران ( اور حکمرانی کے خواہش مند) انکل سامؔ ہی سے مرادیں مانگتے ہیں ۔ میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کی خواہشوں سے بھرپو رنظم کے دو شعر ہیں …

دِل دے کعبے چ، لات منات نیں!

کون ا ینہاں نُوں توڑے!

مَینوں وِی تے ، چاہیدے نَیں !

اشرفیاں دے توڑے!

…O…

اُچّی کُرسی تے مَیں بیٹھاں !

ٹی وی تے ،کراں تقریراں!

کدی کدائیں، انکل سامؔ !

جے ، مَیں وَل ،واگاں موڑے!

مَیں تو کئی سال سے انکلؔ سام کی کرنسی ’’ڈالر‘‘   کو بھی احتراماً ۔ انکل ڈالرؔ ہی لِکھ رہا ہُوں ۔ ترقی پذیر ملکوں کی کرنسی میں ہمارا روپیہ بھی شامل ہے۔ پرانے زمانے میں روپیہ ۔ چاندی کا ہوتا تھا۔ اب کسی دھات کا ہوتا ہے ۔ چاندی کے ، بعد میں دھات کے روپے میں 16 آنے ہوتے تھے ۔ مَیں نے لڑکپن میں ایک فلم میں کسی مزاحیہ اداکار کا گانا سُنا تھا ۔ بول تھے …

اِس دُنیا میں ، سب چور، چور!

کوئی بڑا چور، کوئی چھوٹا چور!

…O…

کوئی چوری کرے خزانے کی ،

 کوئی آنے یا دو آنے کی!

اور کوئی دِل کا چور ،

 اِس دنیا میں سب چور، چور!

معزز قارئین اور پیارے بچو !۔ ہمارے پیارے پاکستان میں تو کئی سال سے ’’ مال خزانے‘‘ چوری کرنے والوں کا دَور دورہ ہے ۔ بظاہر اُن چوروں کا پیشہ کوئی بھی ہو، وہ مال خزانہ  (قومی دولت) لوٹ کر اُسے ’’ انکل ڈالر‘‘ کی شکل میں ، انکل سامؔ کے دیس یا اُس کے بھائی بندوں ( ہمارے دوسرے "Uncles" )کے دیسوں کے بنکوں میں جمع کرا دیتے ہیں اور اُنہی دیسوں میں اپنے ناموں سے یا اپنی اولاد کے ناموں اپنی جائیدادیں بنا لیتے ہیں ۔ ان جائیدادوں کا نام "Saray Mehal" رکھ لِیا جائے یا "Aven Field Apartments" ۔  کوئی فرق نہیں پڑتا؟۔ 

پرسوں (16 جولائی کو)’’ سٹیٹ بنک آف پاکستان ‘‘ کی سوچی سمجھی سکیم کے تحت ملک کے بیرونی کھاتوں میں عدمِ توازن کو کم کرنے کے لئے ڈالر ؔکے مقابلے میں روپے کی قدر (Value) میں ایک مرتبہ پھر بہت کمی کردِی گئی ہے۔ اب ’’ انکل ڈالر‘‘ نخرے کیوں نہ کریں ؟۔ ڈالر کا بنک ریٹ 128 روپے اوپن مارکیٹ میں 130 روپے ہوگیا ہے جِس ، کی وجہ سے حکومتِ پاکستان کے بیرونی قرضے 8 ہزار 12 ارب روپے ہو جائیں گے۔ قرضوں کی شرح سود مزید بڑھ جائے گی۔ درآمدات میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ملکی خسارہ بہت بڑھ گیا ہے ۔ قومی اخبارات میں شائع ہونیوالے ماہرین معیشت کے تبصروں میں کہا گیا ہے کہ ’’ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آ جائے گا۔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک کرایہ بہت بڑھ جائے گا اور دودھ، گوشت، مچھلی ، سبزیوں اور پھلوں کے علاوہ دوسری اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ناقابل برداشت ہو جائیں گی!‘‘۔

معزز قارئین!۔ جب بھی ’’سٹیٹ بنک آف پاکستان ‘‘ اپنے طور پر یا حکومتِ وقت سے ’’ ملی بھگت‘‘ کر کے ڈالر کی قیمت کو بڑھا کر ہماری قومی کرنسی (روپے ) کو ٹکے ٹوکری کردیتا ہے تو مجھے حضرت قائداعظمؒ کا وہ خطاب یاد آ جاتا ہے جِس میں اُنہوں نے 15 جولائی 1948ء کو ) ’’سٹیٹ بنک آف پاکستان ‘‘ کا افتتاح کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ ہمیں دُنیا کے سامنے ایک مثالی نظام پیش کرنا ہے ، جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصّورات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کر کے گویا ہم مسلمانوں کی معیشت کو مضبوط بنانے کا فرض انجام دیں گے اور انسانیت کو سچے اور صحیح امن کا پیغام دیں گے !‘‘ ۔ 

معزز قارئین ! مہنگائی کے ’’طوفان بدتمیزی‘‘ کا ذمہ دار صِرف ’’سٹیٹ بنک آف پاکستان ‘‘ ہی نہیں ہوتا ، اُسے اور وزیر خزانہ کو منتخب یا نگران وزیراعظم کا آشیر بادبھی حاصل ہوتا ہے ۔ زیادہ تر اُنہیں انکل سامؔ کی نگرانی میں پھلتے پھولتے "I.M.F" (International Monetary Fund) کی ہدایات اور خواہشات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوتا ہے ۔  11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد ، 7 جون 2013ء سے 28 جولائی 2017ء تک نااہل وزیراعظم نواز شریف کے سمبندھی ’’ مفرور مجرم‘‘ اسحاق ڈار وزیر خزانہ رہے ۔ اُن کے بعد 27 اپریل 2018ء سے 31 مئی 2018ء تک ( ڈار صاحب ہی تَتِمّہ ) مفتاح اسماعیل رہے ۔ 5 جون 2018ء سے نگران وزیر خزانہ محترمہ شمشاد اختر ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت منتخب ہو یا نگران۔ اُس کا پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

یہ بات "On Record" ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں پاکستان کے 40 فی صد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے ۔ صدر آصف زرداری کے بعد ۔ اُن کی تعداد 50 فی صد ہوگئی تھی اور وزیراعظم نواز شریف کے دَور میں خود وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کئی بار میڈیا پر یہ ’’اقبالی بیان‘‘ دِیا کہ ’’ پاکستان میں 60 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں! ‘‘ ۔ منتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اُن کے بعد نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر اُلملک کے دَور میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ 70 فی صد ہیں یا 80 فی صد ؟ فی الحال راویؔ خاموش ہے ؟ ۔ 

جب بھی مَیں اپنے کسی وزیر خزانہ کی شخصیت اور کردار پر غور کرتا ہُوں تو، مجھے حضرت یوسف ؑ یاد آجاتے ہیں جنہوں ، نے اپنے دَور کے ’’ فرعونِ مصر‘‘ کی درخواست پر مصر کے ۔ وزیر مالیات ؔ( یا وزیر خزانہ ) کا منصب سنبھال کر مصر کی تمام معاشی مشکلات کو دُور کر کے اُسے خوشحال ملک بنا دِیا تھا ۔ حضرت یوسف ؑ کے دادا کا نام حضرت اسحاق  ؑ تھا۔ افسوس کہ جناب اسحاق ڈار نے حضرت اسحاق  ؑ کے نام کی حُرمت کا بھی لحاظ نہیں کِیا۔ معزز قارئین! فروری 2015ء کے اوائل میں وزیراعظم نواز شریف نے وفاقی وزیر برجیس احمد طاہر کو گلگت  ؔبلتستان کا گورنر بنایا تو اِسے ، عمران خان نے گلگت  بلتستان میں عام انتخابات پیشگی دھاندلی قرار دِیا ۔ گورنر گلگت  ؔبلتستان برجیس احمد طاہر نے اپنی صفائی میں کہا تھا کہ مَیں "Governorship" کی تنخواہ نہیں لوں گا‘‘۔ 

اِس پر 26 فروری 2015ء کے ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’ گورنر شِپ اور وزارتوں کی نجکاری؟‘۔ مَیں نے لِکھا تھا کہ ’’ کیوں نہ وزیراعظم نواز شریف ، چاروں صوبوں کے گورنروں اور وفاق اور پنجاب کے وزراء کو بھی نیکی کا راستہ بتائیں ؟ ۔ کیونکہ اُن میں سے اکثر تو متمول حضرات ہیں جنہیں، تنخواہ لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ مَیں نے اپنے کالم میں ’’ بالائی آمدن ‘‘ (رشوت) کو صنعت و حرفت قرار دینے والے اُستاد شاعر جناب اکبر ؔالہ آبادی کا یہ شعر بھی شامل کِیا تھا کہ…

کچھ صنعت و حِرفت پہ بھی ،لازم ہے توجّہ!

آخر یہ گورنمنٹ سے ، تنخواہ کہاں تک؟

معزز قارئین!۔ مَیں اب اپنی اُس تجویز کو نئے سرے سے پیش کرتا ہُوں کہ ۔ منتخب حکومت یا نگران حکومت کا وزیر وفاقی ہو یا صوبائی۔ کیوں نہ ’’ قرض اُتارو !، مُلک سنوارو!‘‘ کا نعرہ لگا کر وزارتوں کی نجکاری کردِی جائے؟۔ کم از کم وفاقی اور صوبائی وزارت ہائے خزانہ کی ؟ اور ہاں! اگر وفاقی یا صوبائی وزارتِ خزانہ کے لئے امیدواروں کی تعداد زیادہ ہو ، تو قرعہ اندازی کے ذریعے فیصلہ کِیا جاسکتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ بغیر تنخواہ کے کام کرنے والا وفاقی یا صوبائی وزیر خزانہ تو ’’انکل ڈالر‘‘ کے نخرے ہر گز برداشت نہیں کرے گا‘‘ اوردُور ہی سے ’’ انکل ڈالر‘‘ کو دیکھ کر اُسے اُستاد سوؔز لکھنوی کا یہ شعر سُنا کر رُخصت کر دے گا …

پڑا ہوگا، کسی کونے میں ، جا پہچان کر لے لے!

تجھے دِل دے کہ مَیں نے تو، تیرا نخرا نکالا تھا!