چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی‘ عسکری اور سیاسی طاقت سے خوفزدہ امریکہ نے اسکے خلاف ایک مہم شروع کی ہوئی ہے۔اسکو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی غرض سے ایک اہم مقام ہانگ کانگ ہے جو جنوبی بحیرہ چین کے اہم بحری تجارتی راستے پراس ملک کی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ بر س جون میں امریکہ اور برطانیہ نے یہاں اپنے ایجنٹوںکے ذریعے ایک احتجاجی تحریک شروع کروائی جسے فی الحال چین نے کامیابی سے کنٹرول کرلیا ہے اور شورش برپا کرنے والے گروپ پسپا ہوکر خاموش ہوگئے ہیں۔ ہانگ کانگ مشرقی ایشیا میں واقع جنوبی بحیرہ چین سے متصل تقریباًایک ہزارمربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ زیادہ تر علاقہ جزیرہ نما ہے۔ دو چھوٹے سے جزیرے بھی اسکا حصہ ہیں۔ پچہتر لاکھ آبادی پر مشتمل یہ بہت ترقی یافتہ گنجان آباد شہر ہے۔ دنیا کی اہم بندرگاہ اوربین الاقوامی مالیاتی سرگرمیوں کا بڑامرکز ہے۔ ایشیا میںسب سے زیادہ ارب پتی لوگ اس چھوٹے سے شہر میں مقیم ہیں۔دنیا کی سب سے زیادہ بلند ترین عمارتیں بھی اسی شہر میں واقع ہیں۔یہ ڈیڑھ سو برس برطانیہ کی نوآبادی رہا جسکے باعث یہاں انگریزوں کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔ایک معاہدہ کے تحت انیس سو ستانوے میںبرطانیہ نے ہانگ کانگ کو چین کے حوالہ کیا تھا۔اس عہد نامہ کی رُو سے اسکا اپنا الگ سیاسی نظام اور قانون ہے جو باقی چین سے مختلف ہے۔اس بندوبست کو ‘ایک ملک‘ دو نظام‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ خصوصی حیثیت 2047 تک قائم رہے گی۔ جب برطانوی سامراج کا عروج تھا ہانگ کانگ بحر اوقیانوس سے لگنے والے ایشیائی ملکوں میں برطانوی سلطنت کی ایک بڑی چوکی کی حیثیت رکھتا تھا۔دوسری جنگ عظیم تک یہ چھوٹا سا شہربرطانیہ کی سامراجی طاقت اور ایشیا میںاثر و رسوخ کی بڑی علامت تھا۔ دنیا کی مالیاتی سرگرمیوں کے ایک بڑے مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس سرگرمیوں کا صدر مقام تھا۔ جب برطانوی سامراج کو زوّال ہوا تو امریکہ نے اسے اپنی انٹیلی جنس سرگرمیوں کا مرکز بنالیا۔ یہاں پرانٹیلی جنس نیٹ ورک فائیو آئیز (پانچ آنکھیں)کا صدر مقام قائم کیا ۔ جاسوسی کے اس ادارہ کے پانچ رکن ممالک ہیں جن میں کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ سنگاپور اس تنظیم کا مددگار ملک ہے۔اس نیٹ ورک کے آپریشنز میں آسٹریلیا کا مرکزی کردار تھا۔یہ تنظیم کمیونسٹ روس کی انٹیلی جنس سرگرمیوں کے توڑ اور جواب کے لیے بنائی گئی تھی۔تاہم کمیونسٹ روس کے زوال کے بعد بھی یہ کام کرتی رہی اور اسکا دائرہ کارزیادہ وسیع ہوگیا۔ یہ تنظیم چین پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کی جانے لگی۔کئی دہائیوں تک یہاں بیٹھ کر امریکہ اور برطانیہ الیکٹرانک آلات کی مدد سے چین کی جاسوسی کرتے رہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے فائیو آئیز کی قیادت کرتی ہے۔ امریکہ کی خفیہ دستاویزات کو پبلک کرنے والے سویڈن کے شہری ایڈورڈ سنوڈن نے جاسوسی کی اس بڑی تنظیم کی سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔فوجی اعتبار سے بھی ہانگ کانگ مشرقی ایشیا میں امریکہ کے لیے اہم بندرگاہ تھی جہاں انیس سو ستانوے تک ہر سال امریکہ کے ستر اسیّ جنگی بحری جہاز لنگر انداز ہوتے تھے۔ اسکے بعد بھی ہر سال بیس تیس امریکی بحری جنگی جہاز اس بندرگاہ پر قیام کرتے ہیں۔چین کے لیے بھی ہانگ کانگ ایک اہم تجارتی اور مالیاتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔انیس سو ستر سے پہلے جب امریکہ نے کمیونسٹ چین کو تسلیم نہیں کیا تھاتو یہ شہر چین اور باقی دنیا کے درمیان رابطہ اور تجارت کا اہم ذریعہ تھا۔متعدد چینی کمپنیاں دنیا بھر میں اپنا مال بیچنے کے لیے اسکا استعمال کرتی تھیں۔ مغربی ٹیکنالوجی ہانگ کانگ کے راستے چین تک پہنچتی رہی۔ اب بھی چین کی بیرونی تجارت اور غیرملکی سرمایہ کاری میںاس شہر کا مرکزی کردار ہے۔ برطانیہ نے ہانگ کانگ میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کی خاطر انیس سوستانوے تک پیدا ہونے والے اسکے باشندوں کو ایک خصوصی ’برٹش نیشنل اوورسیز‘ (بی این او) نامی پاسپورٹ جاری کیا ہواہے جس کے تحت وہ ویزہ کے بغیر برطانیہ آکر چھ ماہ قیام کرسکتے ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ ہانگ کانگ کے شہریوں کا برطانیہ سے تعلق ختم نہ ہوُ‘ فائیو آئیز جاسوسی نیٹ ورک کے کارندے آزادانہ نقل و حرکت کرسکیں۔ انیس سو ستانوے کے بعد پیدا ہونے والے شہریوں کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی۔ اب برطانیہ نے اس سہولت کا دائرہ اتنا وسیع کردیا ہے کہ نئی نسل بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکے گی بلکہ برطانیہ کے شہری بن سکے گی۔ برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ خصوصی پاسپورٹ رکھنے والے افراد اور انکے بیوی اور نابالغ بچے برطانیہ کا ویزہ کے بغیر دورہ کرسکیں گے‘ پانچ سال وہاں رہ سکیں گے اور اسکے بعد برطانوی شہریت حاصل کرسکیں گے۔ اس نئے اقدام سے اس شہر کے تیس لاکھ شہری برطانوی شہری بن سکتے ہیں یعنی تقریباً چالیس فیصد آبادی۔برطانیہ کے اس غیر معمولی اقدام سے ہانگ کانگ کی تزویراتی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس کے اندر اپنی مضبوط لابی کو قائم رکھنا چاہتا ہے جو کسی وقت چین کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے استعمال کی جاسکے۔ امریکہ اور اسکے حواریوں کی سازشوں اور فائیو آئیز انٹیلی جنس کا توڑ کرنے کی خاطر چین نے ہانگ کانگ کی مقامی نیم خود مختار حکومت سے ملکر وہاںتیس جون سے ایک نیا قانون نافذکردیا جس کے تحت چین کے خلاف نفرت پر اُکساناغیر قانونی اور جرم تصور ہوگا۔ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے والے ملزموں پر بند کمرہ میںمقدمہ چلایا جاسکے گا۔ مشکوک افراد کی جاسوسی کی جاسکے گی۔ احتجاج کے دوران میں پبلک ٹرانسپورٹ کو نقصان پہنچانا دہشت گردی شمار کیا جائے گا۔ انٹرنیٹ مہیا کرنے والی کمپنیاں پولیس کے طلب کرنے پر اسے ڈیٹا دینے کی پابند ہوں گی۔ ایک سال سے غیرملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہانگ کانگ میں اپنا کھیل کھیل رہی تھیں۔چین تحمل اور میانہ روی کا مظاہرہ کرتا رہا۔ بالآخر چین نے ان پر قابو پانے کے لیے فیصلہ کُن کاروائی کر ڈالی۔ اس شہر سے مغربی طاقتوں کی پسپائی کے عالمی سیاست پر دُور رس اثرات مرتب ہونگے۔امریکہ اور اسکے اتحادی اب جنوبی بحیرہ چین میں اپناکوئی نیا بڑا اڈّہ تلاش کریں گے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر ہانگ کانگ میں وقتاً فوقتاً شورش کو ہوا دینے کی کوشش کرتے رہیں گے۔