پوری دُنیا کو معاشی غلامی کی جکڑ بندیوں میں گرفتار کرنے کے لئے امریکی شہر بریٹن ورڈ میں نئے عالمی مالیاتی نظام کے تحت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس دن یعنی 22 جولائی 1944ء سے لے کر آج تک اٹھہتر (78) سال گزر چکے ہیں۔ اس نظام کے تحت دُنیا بھر کی اقوام کو سُود دَر سُود قرضوں میں جکڑا گیا، ان کا مسلسل استحصال کیا گیا اور وہ بیچاری دن بدن اس سُودی دلدل میں دھنستی چلی گئیں۔ لیکن ایسی تمام اقوام کے ہاں غلامانہ سے غلامانہ سوچ رکھنے والے بے شمار لیڈر آئے مگر ان سب نے اس ساہوکارانہ غلامی کے باوجود اپنی اقوام کو لڑنے، قرض کی دلدل سے نکلنے اور حوصلے و خودداری سے اس مصیبت کے دریا کو عبور کرنے کا ہمیشہ درس دیا۔ اس جدید تاریخ میں پاکستانی شاید وہ واحد بدقسمت قوم ہے جسے ایک لیڈر نے پورے حوصلے اور جرأت کے ساتھ بھکاری کہا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں کبھی کسی نے کسی راہ چلتے بھیک مانگتے شخص کو اس دیدہ دلیری سے ’’اوئے بھکاری‘‘ کہہ کر اس کی توہین کی ہو۔ مسلمانوں کے دلوں میں تو اللہ کی ناراضگی کا خوف سورۂ ’’والضحیٰ‘‘ کی اس آیت ’’سائل کو مت جھڑکو‘‘ (10) کی وجہ سے اس قدر ہے کہ بڑے سے بڑا متکبر شخص بھی بھیک مانگنے والے سے نرم زبان میں ’’بابا معاف کرو‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تین مفلوک الحال لوگوں کی عزت و تکریم سے مدد کرنے کے لئے فرمایا ہے۔ (1) جسے فقر و فاقہ خاک نشین کر دے، (2) جو شدید قرض میں گھر گیا ہو یا (3) جو مجبور کر دینے والے خون بہا میں پھنس گیا ہو (ابی دائود)۔ ان تینوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھکاریوں کی اس فہرست سے بھی خارج کر دیا ہے جن کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ’’روزِ قیامت ان کے چہرے پر سوال کرنے کا داغ ہو گا ‘‘ (صحیح بخاری)۔ مقروض شخص بھکاری نہیں مجبور ہوتا ہے، وہ اپنی ضروریات کے لئے ادا کرنے کے وعدے پر قرض لیتا ہے۔ دُنیا کا کونسا بڑا تاجر، صنعت کار یا زمیندار ایسا ہے جس نے آج کی جدید دُنیا میں قرض نہ لیا ہو۔ پوری دُنیا میں سرمایہ کاری کی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، بینک اپنا سرمایہ سُود پر دینے کے لئے ہر ملک میں صنعت کاروں کو ترغیب دینے کے لئے سیمینار اور ورکشاپ منعقد کرتے ہیں، انہیں قرضہ لینے کے دلکش فوائد سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ لیکن آج تک مجھے کسی ملک میں بھی کوئی ایک کانفرنس ایسی نہ مل سکی جن کا عنوان، ’’بھکاریوں کی کانفرنس‘‘ (Beggers Conference) رکھا گیا ہو۔ جدید دَور میں قرض تو دیا ہی اس شخص کوجاتا ہے جو اسے واپس کرنے کی صلاحیت اور حیثیت رکھتا ہو۔ اس کی حیثیت کا تعین چھان پھٹک کر کیا جاتا ہے، جسے بینکاری کی زبان میں ضمانت (Collateral) کہتے ہیں۔ یعنی مقروض کی وہ جائداد یا ملکیت جسے ادارے اس شرط پر گروی رکھتے ہیں کہ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں اسے ضبط کر لیا جائے۔ دُنیا بھر میں ملکی قرضہ ہو یا انفرادی قرضہ، اس کی گروی شدہ جائداد کی قیمت اس قرضے سے ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین بینک یا پیرس کلب جیسے ادارے جن ملکوں کو جتنا قرض دیتے ہیں وہ ان ملکوں کی سالانہ جی ڈی پی (Gross Domestic Product) سے کہیں کم ہوتا ہے۔ جی ڈی پی کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک کی ایک سال میں زرعی اور صنعتی پیداوار۔ پاکستان کا کل قرضہ اس کی ایک سال کی زرعی اور صنعتی پیداوار کا 87.56 فیصد ہے۔ یعنی یہ قوم آج بھی قرض کی کل رقم سے 22.44 فیصد زیادہ سالانہ پیداوار کرتی ہے، زیادہ امیر ہے۔ ایسی قوم کو بحیثیت مجموعی یہ طعنہ دینا کہ ’’بھکاریوں کا کوئی حقِ انتخاب نہیں ہوتا‘‘ (Beggar are not Chooser) ۔ دراصل ایک ایسی گالی ہے جسے انسانی تاریخ میں کسی قوم کو اسکے کسی بھی رہنما نے کبھی نہیں دیا۔ عالمی سُودی مافیا نے یہ عالمی سُودی مالیاتی نظام تخلیق ہی اس لئے کیا ہے تاکہ دُنیا بھر کی اقوام کو معاشی غلامی میں جکڑا جائے، اس مافیا نے کبھی کسی مقروض قوم کو ایسے پیٹ بھر کے گالی نہیں دی۔ ’’بھکاری صفت‘‘ حکمرانوں نے ہی ایک پاکستانی کو 1,79,070 روپے کا مقروض کر دیا ہے۔ میں قسم اُٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اس قرض میں کسی ایک پاکستانی کی مرضی اور منشاء شامل نہیں تھی۔ آپ نے اپنی سیاسی ضرورت کے لئے قرض لئے۔ لیڈروں کے چہروں سے نقاب اُتارنے کے لئے جان پرکنز (John Perkins) کی کتاب Confessions of an Economic Hit Man (ایک معاشی غارت گر) کے انکشافات ہی کافی ہے۔ یہ شخص آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا معاشی سفیر تھا، حکمرانوں کو قائل کرتا تھا کہ آپ اپنی قوم کو قرضوں کی غلامی میں جکڑیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ہم ان حکمرانوں کو بڑے بڑے تعمیراتی (Structural) قرضے دے کر قرضوں میں جکڑتے تھے، جیسے موٹر وے، جدید ایئر پورٹ، میٹرو، اورنج ٹرین وغیرہ۔ میاں نواز شریف نے 1997ء میں جو اسلام آباد میں موٹر وے بنایا تھا، آج بھی اس کے دونوں طرف کئی کروڑ بھوکے ننگے افلاس زدہ لوگ پانی، بجلی، تعلیم اور صحت سے محروم رہتے ہیں۔ یہ وہ غیرت مند غریب ہیں جو فصل اُگاتے ہیں اورحکمرانوںکا لیا ہوا قرضہ اُتارتے ہیں۔ یہ غریب دراصل دینے والے ہاتھ ہیں جو مسلسل اس قوم کو دیئے چلے جا رہے ہیں اور حکمران دراصل وہ بھکاری ہیں جو اپنی سیاسی شعبدہ بازی کے لئے ان غریبوں کو ایسے قرضوں کی دلدل میں گراتے ہیں۔ جو ایک غریب جو عزت سے دو وقت کی روٹی کما رہا ہوتا ہے اس کے گھر میں قرضے کی کار چھوڑ دیتے اور کہتے ہیں کہ اے بھکاری انسان تمہارے پاس کوئی ’’چوائس‘‘ نہیں یہ کار پکڑو اور پیٹ کاٹ کر اس کا قرض اُتارو۔ دراصل آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک یہ گالی اس قوم کو دینے کی مدتوں سے خواہش رکھتا ہے، لیکن خوف سے کہہ نہیں سکتا۔انگریزحکمران برصغیر کے مسلمانوں کو گداگر سمجھتے تھے لیکن کہتے نہیں تھے۔ اقبالؒ نے ان کی ذہنیت کو آشکار کرتے ہوئے لکھا تھا غدارِ وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن انگریز سمجھتا ہے مسلماں کو گداگر مسلمانوں کو گداگری کا طعنہ جو انگریز سوچتا رہا، لیکن دینے کی جرأت نہ کر سکا، عالمی مالیاتی ادارے سمجھتے رہے لیکن زبان سے ادا نہ کر سکے۔