آج میں میٹرک کے طلبہ کو انگریزی کی تدریس کے حوالے سے ایک نہایت اہم مسئلے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ مسئلہ نہایت سنگین ہے لیکن اس کی سنگینی کو نہ کبھی محسوس کیا گیا اور نہ کبھی اس کے مضراثرات سے بچنے کی کوئی تدبیر کی گئی۔ ہر سال لاکھوں طلبہ میٹرک کا امتحان دیتے ہیں اور اس امتحان کے نتیجے ہی کو بچے کے مستقبل کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ جب تعلیمی پالیسیاں بیوروکریٹ بنائیں گے اورماہرین تعلیم (پروفیسرز اور ہیڈ ماسٹرز صاحبان) کو مشورے کے قابل نہیں سمجھا جائے گا تو نہ صرف خرابی برقرار رہے گی بلکہ اس کے نتائج بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔ ٹیکسٹ بک بورڈز کے قیام سے پہلے میٹرک کا انگریزی کا پرچہ 100 فیصد Unseen سوالات پر مشتمل ہوتا تھا۔ مضمون (ESSAY) کہانی‘ اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو ترجمہ‘ گرائمر‘ محاورات‘ غرض تمام سوالات Unseen ہوتے تھے۔ A پیپر کے لیے بھی ٹیکسٹ بک نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ ہر سکول کا ہیڈ ماسٹر اپنی مرضی سے ٹیکسٹ بک اور گرائمر و ترجمہ کی کتاب مارکیٹ میں چھپنے والی بہت سی کتابوں سے منتخب کرتا تھا۔ مارکیٹ میں دستیاب یہ کتابیں بہت تجربہ کار اور لائق اساتذہ کی لکھی ہوتی تھیں۔ مارکیٹ میں کمپی ٹیشن (مقابلہ) تھا چنانچہ ہر پبلشرز کی کوشش ہوتی تھی کہ بہترین اساتذہ سے کتابیں لکھوائے تاکہ ہیڈ ماسٹر صاحبان ان کی کتابوں کو منتخب کریں۔ پرانے لوگوں کو ابھی تک افضل انور مفتی‘ چوہدری طفیل محمد‘ فیروزالدین فیروز‘ ایم اے عزیز‘ اصغر زیدی‘ بشیر احمد وغیرہ کے نام یاد ہوں گے، جنہوں نے انگریزی کی بہترین کتابیں لکھیں لیکن ٹیکسٹ بک بورڈز کی مہربانی سے ان عظیم اساتذہ اور ان کی کتابوں کو منظر نامے سے ہٹا دیاگیا اور اپنی لکھوائی ہوئی کتابوں کو لازمی قرار دے دیا گیا۔ یہ کتابیں معیاری نہیں اور ان کو لازمی قرار دینے سے صورت حال حد درجہ خراب ہو گئی۔ ان کتابوں کے مصنفین میں ایک دو بڑے نام اور ایک دو جونیئر لیکچرار کے نام ہوتے ہیں۔ غالباً ہوا یہ کہ جو سینئر پروفیسر ہیں‘ انہوں نے اپنے جونیئر سے‘ انہیں تھوڑی بہت ہدایات دے کر‘ کتابیں لکھوا لیں۔ چونکہ کتاب تو لکھے جانے سے پیشتر ہی منتخب کرلی گئی تھی اور رائٹرز کو چیک کا ملنا بھی یقینی تھا، لہٰذا جیسی الٹی سیدھی کتاب لکھی گئی وہ بورڈ نے پبلشرز سے لکھوا کر طلبہ کے سر مونڈھ دی۔ اب دو کتابیں جماعت نہم اور دو کتابیں دہم میں پڑھائی جاتی ہیں‘ دونوں پرچے ان کتابوں سے SET ہوتے ہیں۔ مضمون‘ کہانی‘ پیراگراف‘ ترجمہ‘ گرائمر کے سوالات‘ سب ان کتابوں سے لئے جاتے ہیں۔ امتحانی پرچوں میں ایک لفظ بھی ان کتابوں سے باہر نہیں ہوتا اور یوں طلبہ کا کام بہت آسان ہو گیا ہے۔ وہ ان دونوں کتابوں کو اچھی طرح سمجھے بغیر رٹ لیتے ہیں اور امتحان میں اتنے نمبر حاصل کرلیتے ہیں کہ جیسے پرانی نسل کے لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ میٹرک میں ہماری انگریزی ان سے بدرجہا بہتر ہوتی تھی لیکن نمبر ان سے کم ہوتے تھے۔ ان دنوں 60 فیصد نمبر حاصل کرنا آسان نہ تھا لیکن یہ نئی نسل کے میٹریکولیٹ نوے (90) فیصد سے بھی زیادہ نمبر حاصل کرلیتے ہیں۔ رٹا لگانا تو مشکل کام نہیں۔ ویسے بھی طالب علم جتنا کند ذہن ہوگا‘ رٹے میں اتنا ہی تیز ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ دور جدید کے ان طلبہ کو اپنی طرف سے کچھ لکھنا پڑ جائے تو گھبرا جاتے ہیں۔ ہر چیز بنی بنائی چاہتے ہیں تاکہ رٹ لی جائے اور ڈھیر سارے نمبر لے لئے جائیں۔ ان کتابوں کو دیکھ کر مجھے ازحد مایوسی ہوتی ہے جو اسباق ان کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ان کی انگریزی اخباری طرز کی نہایت بے مزہ بلکہ بدمزہ ہے۔ نہایت ثقیل زبان جو روزمرہ اور محاورے کی چاشنی سے محروم ہے۔ ان رائٹرز کو پتہ ہی نہیں کہ ہم کن طلبہ سے مخاطب ہورہے ہیں۔ کیسی زبان استعمال کرنی چاہیے۔ بات کرنے کا اسلوب کیا ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے نوجوان طلبہ کے لیے لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تھوڑی بہت ادیبانہ صلاحیت ہونی چاہیے۔ زبان کے بنیادی اصولوں پر دسترس ہونی چاہیے۔ ہر وہ شخص جو چند سال کسی کالج میں پڑھالیتاہے‘ ضروری نہیں کہ اس قابل بھی ہو کہ اچھی کتاب لکھ سکے۔ ہر شخص مرحوم مولانا اسماعیل میرٹھی کی طرح زبان و بیان کی باریکیوں اور طلبہ کی نفسیات کو سمجھنے کے قابل تو نہیں ہوتا۔ میں آپ کو ایک دلچسپ مثال دیتا ہوں۔ جماعت نہم یا غالباً دہم کی کتاب میں ایک خط ہے جو ایک باپ اپنے بیٹے کو لکھتا ہے۔ آپ اس کا پہلا جملہ ملاحظہ فرمائیں جس کا ترجمہ یوں ہے۔ میرے پیارے بیٹے‘ ایک دن آئے گا جب میں اس دنیا میں موجود نہیں ہوں گا۔ لیجئے صاحب پہلے ہی جملے میں ایک تیرہ چودہ سال کے بچے کو یتیم ہو جانے کی خوش خبری سنا دی گئی ہے کیا بچوں سے اس طرح مخاطب ہوا جاتا ہے۔ اس قسم کی کئی حماقتیں ان کتابوں میں موجود ہیں۔ ایک اور بات۔ ہر سبق کے آخر میں سوالات دیئے گئے ہیں جن کا جواب طلبہ نے دینا ہے۔ ان سوالوں میں گرائمر کی واضح غلطیاں موجود ہیں۔ پارٹس آف سپیج کو گڈ مڈکر دیا گیا ہے۔ لگتا ہے انہیں خود گرائمر کے ابتدائی اصول بھی نہیں آتے۔ بچوں کے لیے کتابیں لکھنے کا کام ناتجربہ کار لیکچرز کے سپرد کر دیا گیا جنہوں نے ہر کام کی ریڑھ مار کر رکھ دی ہے۔ دوسرے مضامین کا تو مجھے زیادہ پتہ نہیں لیکن انگریزی اور اردو کی کتابیں جو ٹیکسٹ بک بورڈز نے چھا پی ہیں ردی میں بیچنے کے قابل ہیں۔ یہ کام جس قدر مشکل اور نازک تھا‘ اسے اتنا ہی لاپروائی اور کم عقلی سے کیا گیاہے۔ جب تعلیم کا نظام بیوروکریٹس کے حوالے کردیا جائے گا اور لائق مصنفین کے بجائے مارکیٹ رائٹرز پر تکیہ کیا جائے گا جو ہر کام جلد از جلد نبٹانے کی کوشش کریں گے‘ تاکہ چیک جلد از جلد مل سکے‘ تو پھر سب سٹینڈرڈ کتابیں ہی لکھی جائیں گی۔۔ نئی نسل کے نوجوانوں کی انگریزی نہایت ناقص ہے۔ خود لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہر چیز NET سے نقل کرلیتے ہیں۔ وہ جو MCQ's کی رسم نکلی ہے اس نے مزید بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ اب خود لکھنے کے بجائے ٹِک کرنے سے ڈگری مل جاتی ہے۔ پچاس نمبر حاصل کرنے کے لیے پچاس ٹِک کردیں تو فرسٹ ڈویژن وٹ تے پئی اے۔ اب یہ حال ہے کہ انگریزی میں Creative رائٹنگ ان کے بس کی بات نہیں۔ میں نے ایسے ایسے ایم اے انگریزی دیکھے ہیں جو معمولی سا لیٹر یا مضمون نہیں لکھ سکتے۔ انہیں رٹے اور نقل کی ایسی پختہ عادت ہو گئی ہے کہ ایم فل یا پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے بھی ادھر ادھر سے مواد اکٹھا کر کے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں‘ اس ذہنیت کی بنیاد ٹیکسٹ بک بورڈ رکھ دیتا ہے جس کا فلسفہ یہ ہے کہ دماغ پر زور دے کر لکھنا نری حما قت ہے۔ نقل اور رٹے سے کام چلائو۔