صبح بیدار ہوا تو پہلا خیال یہی آیا کہ آج کا دن تو وہ ہے جس کے لیے بقول شاعر دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے اس وقت جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں،بیشتر نتائج سامنے آچکے ہیں۔لیکن اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں نتائج تجزیوں ، قیاسات اور تخمینوں سے باہر نہیں نکلے، خواہ ان پر اپنے دل اور دماغ کو اعتبار ہو، یقین ہو یا نہیں۔اس لیے نتائج پر تو میں بات نہیں کرسکتا ہاں بات اس دن پر کی جاسکتی ہے اور اس وقت تک کی خبروں پر۔ انتخابات کا دن کام سے چھٹی کا دن بھی ہے ۔ صرف ایک کام سب کو کرنا ہے ۔وہی کام جو سب سے زیادہ اہم ہے ۔لیکن اس دن کا آغاز اچھا نہ ہوا ناشتے سے فارغ ہوکر ٹی وی آن کیا تو کوئٹہ دھماکے کی خبر سے دل بوجھل ہوگیا ۔ اتنی جانیں، اتنا لہو اورابھی پورا دن پڑا تھا ۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ اچھی خبریں بھی آنے لگیں کہ پولنگ سٹیشنز پر لوگ مسلسل آرہے ہیں اور مجموعی طور پر اکا دکا شکایات سے قطع نظر پولنگ پرسکون ماحول میں جاری رہی ۔ لاہور میںبارش کی بلکہ زبردست بارش کی پیش گوئی بھی تھی لیکن گیارہ بجے تک دھوپ نکلی ہوئی تھی اور موسم مجموعی طور پر حبس کے باوجود غنیمت تھا۔ اندازہ تھا کہ ابھی پولنگ سٹیشنز پر رش ہوگا اور یہی اطلاعات بھی تھیں لیکن یہ ہجوم مزید بڑھنے کی توقع تھی اس لیے کہ چھٹی کے دن لوگ باہر دیر سے نکلتے ہیں ۔ ہم نے ایک بجے کے قریب گلشن راوی بلاک کا رخ کیا ۔یہ ہمارا سابقہ پولنگ ایریا ہے ۔ اگرچہ اب میری رہائش بدل گئی ہے لیکن ووٹ منتقل نہیں ہوئے تھے اگرچہ اس کے لیے کوشش بھی کی گئی تھی ۔لیکن شاید یہ پیچیدگیوں کی وجہ سے ایک لمبا عمل ہے جب تک اس کے پیچھے نہ لگیں ۔کوشش بس کوشش ہی رہتی ہے ۔ پولنگ سٹیشن اگرچہ ٹھیک سے معلوم نہ تھا لیکن قریب پہنچتے ہی کھڑی گاڑیوں کی تعداد، لوگوں کے ہجوم اور پولنگ کیمپس کی گہما گہمی سے اندازہ ہوگیا۔ یہ سٹیشن ایک بڑے گرلز سکول میں واقع تھا۔ 2013ء کے انتخابات کی طرح اس سال بھی الیکشن کمیشن نے یہ اچھا کام کیا کہ ایک مخصوص نمبر 8300پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج دیا جائے تو آپ کے ووٹ کی تفصیلات موبائل پیغام کے ذریعے بھیج دی جاتی رہیں۔اس کی وجہ سے لوگ مارے مارے پھرنے سے بچ گئے ورنہ اصل ووٹ ڈالنے سے پہلے یہ ایک الگ مشقت ہوا کرتی تھی ۔لیکن اس کے ساتھ یہ کہ چونکہ موبائل پولنگ سٹیشن کے اندر لے جانے کی اجازت نہیں اس لیے یہ تفصیلات علیحدہ کاغذ پر لکھ کر ساتھ رکھنی پڑیں۔ پولنگ کیمپ اس لحاظ سے فائدے کی چیز ہیں کہ ووٹر کو آسانی سے متعلقہ تفصیلات فراہم ہوجاتی ہیں۔جس پولنگ کیمپ سے میں نے پرچی بنوائی اس کے کارکن اپنے موبائل پر انٹر نیٹ سے شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے معلومات لے کر پرچی پر درج کر رہے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ تمام امیدواروں کے پولنگ کیمپ ساتھ ساتھ تھے ، کچھ پر ہجوم زیادہ اور کچھ پر کم تھا لیکن ماحول کشیدہ نہیں تھا اور آزادی کے ساتھ کام ہورہا تھا۔دن کے ڈیڑھ بجے کے قریب اس علاقے میں اچھا خاصا ہجوم تھا ۔ لوگ پیدل ، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر آرہے تھے ۔اور مردوں کی ہی نہیں گھرانوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔خواتین کی خاصی بڑی تعداد سٹیشن پر موجود تھی اور فوج اور پولیس کی مناسب تعداد بھی سٹیشن کے باہر نظر آرہی تھی ۔ پولنگ سٹیشن پر انتظامات پہلی ہی نظر میں اچھے لگے۔ صاف ستھرے بڑے سکول کے مختلف کمروں میں مختلف بوتھ نمبر واضح طور پر لگے ہوئے تھے اور رہنمائی کے لیے لوگ موجود تھے۔اچھی بات یہ کہ سکول کے مختلف کمروں کو بلکہ شاید تمام کمروں کو بوتھ بنا کرووٹروںکا ایک جگہ ہجوم ہونے اور قطاریں لگنے سے بچا لیا گیا تھا۔مردوں اور عورتوں کے علیحدہ انتظام میں کوئی بھگدڑ اور افراتفری نظر نہیں آئی ۔ پولنگ کا عملہ جو ظاہر ہے بنیادی طور پر اسکولوں کالجوں کے اساتذہ اور سٹاف پر مشتمل تھااگرچہ کہیں کہیں تھکا ہوا لگ رہا تھا لیکن متعلقہ لوگ اپنی جگہ پر موجود تھے اور فارغ بیٹھے ہوئے نہیں تھے۔جس کمرے میں میرا ووٹ تھا اس میں تین جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس موجود تھے۔اور ان کے درمیان ہنسی مذاق چل رہا تھا۔ کمرے کے اندر کا ماحول خوشگوار تھا اور پولنگ مناسب رفتار سے ہورہی تھی ۔ اسی سٹیشن کے خواتین کے کمروں میں بھی صورت حال یہی دیکھنے میں آئی اور عملے کی خواتین بھی کسی پریشانی اور دباؤ کا شکار نظر نہیں آتی تھیں۔ غالبا ًاس دفعہ پہلی بار یہ اہتمام کیا گیا کہ ووٹر کی باتصویر فہرستیں عملے کے پاس موجود تھیں اور اصل شناختی کارڈ، تصویر اور نام کی تصدیق بہت آسان تھی ۔اس بارفہرست کے ناموں میں ہجوں کی غلطیاں بھی کم تھیں جس کی وجہ سے بھی ووٹ کا معاملہ شبہے کا شکار ہوجاتاتھا۔ہمیں پولنگ سٹیشن میں داخلے سے ووٹ ڈالنے تک دس سے پندرہ منٹ لگے اور اس کے بعد ہم فارغ ہوچکے تھے ۔ سچ یہ ہے کہ ووٹ ڈالنے کا تجربہ خوشگوار تجربہ ہونا چاہیے جو اس بار خوشگوار تھا اور ہر دفعہ کی نسبت انتظام بہتر تھا۔ یہ اپنے حلقے کا حال ہے ۔ ظاہر ہے مختلف حلقوں اور پولنگ سٹیشنوں میں صورت حال الگ ہوسکتی ہے ۔ لیکن جن دوستوں سے مختلف علاقوں میں بات ہوئی ۔ یا فیس بک پر لوگوں کے تاثرات پڑھنے کو ملے اس سے یہی تصدیق ہوئی کہ کم و بیش یہی صورت حال سب کو دیکھنے کو ملی ۔یہ تاثر غلط نہیں ہے کہ ہم لوگ کیڑے نکالنے بلکہ اپنی طرف سے کیڑے ڈالنے میں ماہر ہیں ۔ کسی حکومتی ادارے کی طرف سے بہتر انتظام اور سہولیات ہوں بھی تب بھی ہم اپنی جیب سے چند کیڑے نکال کر ڈال دیتے ہیںتاکہ ہماری تسکین ہوتی رہے ۔ کلمۂ خیر ہمارے لیے ذر امشکل کام ہے ۔ حالانکہ تنقید کا حق بھی اسی کو ہے جس کو کلمۂ خیر کہنے کا حوصلہ ہو ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنے انتخابات اب تک میں نے دیکھے اور ووٹ ڈالا ہے اس بار پولنگ کے انتظامات سب سے بہتر تھے۔ ٹی وی پر یہ بات دیکھ کر افسوس ہوا کہ عمران خان جب ووٹ ڈالنے آئے تو انہوں نے میڈیا سے خطاب بھی کیا اور ووٹ بھی سب کے سامنے ڈالا۔ یہ واضح طور پر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے ۔ ایک قومی لیڈر کا کسی ضابطے اور قاعدے کی پروا نہ کرنا اور وہ بھی ایسے اہم مرحلے پر جس میں قوم کی نظریں اس پر مرکوز ہیں انتہائی افسوسناک ہے ۔ یہی صورت حال بلاول بھٹو کی بھی تھی ۔ شہباز شریف کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی جس میں وہ قطار میں لگ کر ووٹ ڈال رہے ہیں۔کاش یہ حقیقی صورت حال بھی ہوا کرتی ۔ میں نے گزشہ کالم میں لکھا تھا کہ صدمات سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے پسند کے امیدوار اور جماعت کو ووٹ ڈالیں مگر توقعات زیادہ وابستہ نہ کریں۔میں اس پر قائم ہوں لیکن سچ یہ ہے کہ جس طرح جوق در جوق لوگ اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے اور ان کے چہروں پر جو چمک، عزم اور امید نظر آئی وہ اس قوم سے بہت توقعات وابستہ کرتی ہے ۔ ملک کے بڑے شہروں میں لوگوں کے چہرے اسی جگمگاہٹ سے معمور ہیں ۔ جیت کسی بھی امیدوار کی ہو ۔ فتح کسی بھی جماعت کی ہو ۔ یہ جیت قوم کی ہے ۔ یہ فتح پاکستان کی ہے ۔ مجھے یہ کالم بھیجتے وقت نتائج کا علم نہیں لیکن ایک نتیجہ تو میرے سامنے ہے ۔ جیت پاکستان کی ہوئی ہے ۔ اور پاکستان کی جیت سب کو مبارک ہو ۔ یہ شعرہر پاکستانی کے نام ۔ ہاتھوں پر لکھی جاتی ہے ہر تقدیر محبت کی آج انگوٹھے پر لکھی ہے ایک لکیر محبت کی