کلرکہار کا 500سال پرانا’’باغِ صفا‘‘،جس کی بنیاد ہندوستان میں سلطنتِ مغلیہ کے بانی ظہیر الدین بابر نے،پانچ صدیاں قبل،20فروری1591ء میں رکھی،جس کو برصغیر میں ، عہدِ مغلیہ کے سب سے پہلے باغ کی حیثیت سے معتبر جانا جاتا ہے،ظہیر الدین بابر گیارہ برس کی عمر میں فرغانہ کا حکمران بنا،تاج و تخت نے قدم چومے،لیکن ساتھ مصائب و مشکلات کا بھی ورود ہوا،کم عمری ہی میں زمانے کے بہت سے انقلاب کا مشاہدہ کیا،کہیں مظفر و منصور تو کہیں مفتوح و معتوب۔ان مصائب و مسائل نے بابر کو اور زیادہ مضبوط و مستحکم اور مستقل مزاج و ولولہ انگیز بنا دیا،کابل کی فتح مندی کے بعد،ہندوستان کی فتح کی آرزو نے جنم لیا۔ 1519ء میں باجوڑ کے قلعے کو فتح کرتا ہوا،بھیرہ کو سَر کرنے کے بعد،بھیرہ کے قریب،بجانب شمال،یہ کہہ کر استراحت پذیر ہوا کہ’’ایں بچہ کشمیر است‘‘،یعنی یہ چھوٹا کشمیر،جنت نظیر ہے۔ وہ تزکِ بابری میں لکھتا ہے کہ ہم چلتے چلتے اگلے روز کلاہ کہار یعنی کلرکہار کے لہلہاتے کھیتوں کے قریب نمازِ ظہر کے لیے اپنے گھوڑوں سے اترے۔۔۔۔لاہور سے اسلام آباد کی طرف جاتے،دریائے جہلم کو عبور کرتے ہی موٹر وے کی سیاہی۔۔۔سرمئی رنگ میں بدل جاتی اور پہاڑوں کے بیچوں و بیچ،بل کھاتی یہ موٹر وے، اوپر کی جانب مستعد اور رفتہ رفتہ سطح سمندر سے چار ہزار فٹ کی بلندی کو چھونے لگتی ہے اور کلرکہار انٹرچینج اور ریسٹ ایریا کی جانب دلکش مناظر اور مظاہر،خوبصورت جھیل اور کشادہ وادی دکھائی دینے لگتی ہے،جو کلرکہار کا یقینا ایک اہم حوالہ ہے،لیکن اس کا،اس سے بھی قدیم اور اصل حوالہ،حسنی نسبتوں سے مزیّن،وہ بزرگانِ دین ہیں،جن کے مزاراتِ مقدسہ گذشتہ آٹھ صدیوں سے مرجع خلائق ہیں،جیسا کہ منیرنیازی نے کہا تھا: جیہڑیاں تھانواں صوفیاں جا کے لئیاں مل اوہ اوہناں دے درد دی تاب نہ سَکیاں جھل اکو کْوک فرید دی سْنجے کر گئی تھل یہ دربار حضرت آہو باہو کے نام سے معروف ہے، جو معتبر روایات کے مطابق،پیران پیر حضرت الشیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے صاحبزادے الشیخ سیّد عبدالرزاق الجیلانیؒ کے شہزادے حضرت سیّد یعقوب اورحضرت سیّد اسحاق کی قبورِ اطہر ہیں، جو تبلیغِ دین اور بالخصوص مقامی مسلمانوں کو ہندوؤں اور بطور خاص مرہٹوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھنے اور ان باطل قوتوں کے خلاف جہاد کرنے اس خطّے میں تشریف فرما ہوئے۔ہمارے ہاں ہمارے بعض مزاروں یا روحانی ہستیوں کے ساتھ بعض اساطیری یا دیومالائی (Myths) روایات بھی وابستہ ہوتی ہیں،جیسے بعض مزارات کے کنویں کا پانی خاص امراض کے لیے شفاء کا باعث سمجھا جاتا ہے،اسی طرح اس مزار اور اس خاص قریے کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں کچھ خاص اعتقادات پائے جاتے ہیں، چنانچہ مجھے بھی میرے کسی عزیز نے اپنی ایسی ہی کسی منت کے حوالے سے تاکید کی، جس کی میں نے وہاں حاضری کے معاً بعد ادائیگی کا اہتمام کیا۔ اس مزار کے شرقی جانب ، سترہویں صدی عیسوی کے ممتاز و معتبر قادری بزرگ حضرت سلطان باہوؒ (1629ئ۔۔۔ 1691ئ)کے قدوم کا فیضان بھی،اس تاریخی مقام کو میسر ہے، جہاں آپ چلہ کش ہوئے،مناقبِ سلطانی اور جہلم گزیٹیئر سمیت دیگر تذکروں میں منقول ہے کہ یہاں کا ایک چشمہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکرؒ سے ، جبکہ دوسرا چشمہ حضرت سلطان باہوؒ سے منسوب ہے۔یہیں پر آپ سے، اس حیرت انگیز کرامت کا بھی ظہور ہوا، جس کے مطابق کہ رمضان کے اعتکاف میں ایک ہرن سامانِ افطار لے کر حاضر ہوتا، جس کو ایک شعر میں یوں منظوم کیا گیا : عجب دیدم کرامت شیخ باہوؒ برات عاشقاں بر شاخِ آہو موجودہ چلّہ گاہ حضرت سلطان باہوؒ کا’’حجرۂ اعتکاف ‘‘جس کو آنے والے زیریں راستہ کو کشادہ اور ہموار کرنے کی بھی ضرورت تھی، چنانچہ گذشتہ ہفتے ان مزاراتِ مقدسہ پر حاضری ،اور یہاں کے جاری ترقیاتی و تعمیراتی کاموں کا جائزہ ہوا،جس میں جدید اور عالی شان مسجد،خوبصورت و کشادہ دربار، زائرین کمپلیکس ، مہمان خانہ ، ڈسپنسری، گوشۂ محققین، لائبریری اور دارالعلوم سمیت دیگر امور شامل تھے، جسے میں نے بلڈنگ سٹرکچر کے حوالے’’ماڈل خانقاہ‘‘کانام دیا تھا،گذشتہ تحریر اسی عنوان سے آراستہ تو تھی ، مگر اس تک پہنچتے پہنچتے اختتام پذیر ہو گئی، اور یہ تفصیل تشنہ رہی کہ دورِ جدید میں ایک’’ماڈل خانقاہ‘‘کے اجزاء "Component"کیا ہونے چاہئیں۔ کیا اس کے لیے محض کوئی ہمہ جہت عمارت کی تعمیر کافی ہے ،یا اس کی اصل روح ایک ایسا شیخ تربیت ہے ،جس کی صحبت میں رہ کر لوگ روحانی جذبوں اور داعیوں سے آشنا ہو سکیں۔ بہر حال اس وزٹ میں اوقاف، پولیس ، ضلعی انتظامیہ سمیت دیگر عمائدین بھی شامل تھے، ہمارے سیکرٹری اوقاف، جو بہر سْوبیوروکریٹ۔۔۔ بلکہ سینئر بیوروکریٹ، اور تاریخ و تصوّف کا گہرا شغف رکھتے ہیں ، نے کلرکہار کے مختلف تاریخی حوالوں میں اْس "ویرا ہاؤس "کی بابت بھی استفسار کیا ، جس کے مرکزی دروازے پر"جائے شعر"کے ساتھ یہ شعرآراستہ ہے : انہی پتھروں پہ چل کر، اگر آسکو تو آؤ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے یعنی برسوں قبل مصطفی زیدی نے یہ شعر ، بطور ڈپٹی کمشنر جہلم، اس مقام پر کہا۔ ابتدائی طور پر یہ سرکاری ریسٹ ہاؤس تھا، جس کو انہوں نے اپنی غیر ملکی اہلیہ "ویرا"کے نام سے منسوب کرتے ہوئے VEERA HOUSEبنا دیا۔ جو آج کل اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس ہے، پہاڑ پر قدرے بلندی پہ واقع یہ مقام اور اس کے بالمقابل خوبصورت آشیانہ لاج، جس کے ٹیرس پہ کھڑے ہوں تو پوری وادی آپ کی نگاہوں میں سمٹ جاتی اور خوشگوار ہوا کے جھونکے ، مشام جاں کو معطر کرنے کے لیے بیتاب ہو جاتے ہیں، یہ چڑھائی اب قدرے "Smoth"۔ لیکن پچاس سال قبل یہ راستہ ویسا ہی ہوگا جیسا نقشہ مصطفی زیدی کے مذکورہ شعر میں ہے۔ اے سی صاحبہ نے بتایا کہ یہاں خوبانی اور لوکاٹ کثرت سے دستیاب ہے۔ سرِ شام مور رقص کناں ہوتے اور ان کی گنگناہٹیں ماحول کو دلکش بنا دیتی ہیں۔ مصطفی زیدی بھی خوب آدمی تھے، موصوف 1930میں الہ آباد میں پیدا ہوئے،گورنمنٹ کالج سے انگریزی ادبیات میں ماسٹر کیا۔ پاکستان بننے کے بعد 1951ء میں پاکستان تشریف فرما ہوئے، پہلے اسلامیہ کالج کراچی اور پھر پشاور یونیورسٹی میں پڑھایا، 1954ء میں پاکستان کی سپیریئر سروس کا حصّہ بن کر جہلم، ساہیوال ، لاہور، خانیوال ، نوابشاہ میں ڈپٹی کمشنر سمیت دیگر سرکاری حیثیت میں تعینات رہے۔ بیسویں صدی کے معروف شعراء میں شمار پایا، ابتدائی شعری مجموعہ "موج مری صدف صدف"پر فراق گورکھپوری نے دیباچہ لکھا، جس میں انہوں نے ایک بڑے شاعر کے طور پر ان کی بابت، پیشین گوئی کی۔ فوجی آمریت کے نشانے پہ ہونے کے سبب، افسران کی اس فہرست میں بھی شامل تھے، جن کو حکومت "سیک"کرنا چاہتی تھی، مگر اس کی نوبت ہی نہ آئی، اور 12اکتوبر1970ء کو کراچی میں پْراسرار ہلاکت کی نذر ہوتے ہوئے ، کمرے میں مردہ پائے گئے۔ تحقیقاتی کمیشن بنے، عدالتوں میں مقدمے چلے، لیکن یہ معمہ حل نہ ہوا کہ آیا یہ خود کْشی تھی یا قتل، بہرحال ان کا اپنا کہا ہوا شعر ہی ان پر صادق آگیا: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے