میں نے تو اڑتے پرندوں سے یہی سیکھا ہے کام آئے تو فقط اپنے ہی بازو آئے اس شعر پر بات کرنے سے پہلے ذرا سی بات اپنے دوست اور 92نیوز کے کالم نگار اشرف شریف کے بارے میں ہو جائے کہ ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ ان کو ....Severe chest painہوئی ہے۔ سخت تشویش ہوئی ان کے گھر فون ملایا مگر جواب ندارد‘ فوراً 92نیوز کے ایڈیٹوریل میں فون کیا تو خبر کی تصدیق ہوئی اور پتہ چلا کہ وہ گھر پر ہیں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو Muscular painتھی یعنی پٹھوں کا درد۔ ایک گو نہ اطمینان ہوا اور خوشی بھی کہ ہمارا دوست ڈیل ڈول بھی رکھتا ہے ۔ظاہر ہے اس درد کے لئے پٹھوں کا ہونا ضروری ہے اور اشرف شریف تو ویٹ لفٹر اور باڈی بلڈر بھی ہے اور ساتھ ہی باغبانی کا مشغلہ بھی رکھتا ہے بس کہیں اونچ نیچ ہو گئی اور درد کو موقع مل گیا۔ بہرحال ہماری دعا ہے کہ نظر لگے نہ کبھی تیرے دست و بازو کو‘‘ اب دیکھیے ہمارے مندرجہ بالا شعر کا تعلق بھی تو اسی دست و بازو سے ہے کہ اڑنے والوں کو اپنے ہی بل بوتے پر اڑنا پڑتاہے۔ پرندے سے سیکھنا کوئی نئی بات نہیں کہ رائٹ برادرز نے بھی تو پرندوں کو دیکھ کر ابتدائی جہاز بنایا تھا اور آج انسان ہوائوں میں اڑتا پھرتا ہے اور عجیب بات یہ کہ پرندے کا تعلق آج بھی اس سے الگ نہیں ہوا کہ جہاز کے سامنے پرندا آ جائے تو جہاز کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایئر پورٹ بناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ گنبد نما ساخت نہ بنائی جائے کیونکہ اس سے پرندے ترغیب پاتے ہیں مگر یہی بات جب ایئر پورٹ بناتے ہوئے نواز شریف صاحب کو بریف کی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا بات ٹھیک ہے مگر گنبد پھر بھی بنیں گے کہ ابا جی کی خواہش ہے یہ بات ہمیں ایک انجینئر نے CNAکی میٹنگ میں بتائی تھی۔ یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا لکھنا شروع کرو تو کیا کچھ یاد آتا جاتا ہے اب یادوں کو روکنے کے لئے تخیل یا حافظے کے در کون بند کر سکتا ہے ۔ جب ہم نے اپنے دست و بازو تو کہیں اور استعمال کئے مگر امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے کے آسرے پر بیٹھے رہے جسے نہ کبھی آنا تھا اور نہ کبھی آیا۔ ہم ہیں کہ ایک عجیب بیماری میں مبتلا ہیں کہ ایک دوسرے کے پر کترتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً کوئی بھی اڑنے کے قابل نہیں رہتا۔ میں غلط نہیں کہہ رہا ہمارے محکموں کا یہی حال ہے کیا کوئی محکمہ دوسرے کے لئے کبھی مددگار رہا بلکہ کوئی بھی اپنی مدد آپ کے تحت بھی اڑنے کے قابل نہیں رہا۔ محکمہ پرندہ اور افراد اس کے پروں کی طرح ہوتے ہیں۔ ہمیں شاید اس بات کا شعور ہی نہیں ہم کبھی نہیں سوچتے کہ ہماری ایک انفرادی زندگی ہے اور ایک اجتماعی زندگی ہے اور اس اجتماعی زندگی کا کوئی نظریہ بھی ہے۔ ہم نہ تو خود ڈھنگ سے جیتے ہیں اور نہ کسی کو جینے دیتے ہیں اپنا کام کرنا ہمیں پسند نہیں اور دوسرے کو کام کرتے دیکھنا ہمیں برداشت نہیں ۔یہ ایک فطری عمل ہے کہ بال و پر حرکت میں رہیں تو جسم کو اٹھاتے ہیں اگر وہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو جائیں تو وہ اپنی سکت کھو سکتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے تیراکی کرنے والے ہی کے جوہر کھلتے ہیں۔ ہماری کامیابی بھی تو فعالیت میں رکھی گئی ہے۔تحرک ہی زندگی ہے اور جمود موت۔ اس فلسفہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہی کہ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے۔ اقبال ہماری بیماری کو سمجھتے تھے کہ لازوال اظہار کیا: وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کر گسوں میں اسے کیا خبر کہ کیاہے رہ و رسم شاہبازی بہرحال ہم تو بات کر رہے تھے دست و بازو کی۔ یقینا اپنے دست و بازو ہی کام آتے ہیں۔ مطلب اگر اس کو پھیلا دیا جائے تو پھر مخلص اور جانثار دوست بھی دست و بازو بن جاتے ہیں۔ وہ جو مشکل وقت میں ہمارے کام آتے ہیں کبھی تو اپنے بھی کام نہیں آتے۔ کچھ مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں کبھی انہیں خود غرضیاں گھیر لیتی ہیں۔ ایسے میں اجنبیت اور اکیلا پن پیدا ہوتا ہے انسان ضرور سوچتا ہے کہ دوستوں نے کیوں نہیں سوچا: میرے بازو نہیں رہے میرے لو مرا آخری سہارا گیا دوسری بات یہ بھی ہے کہ اپنے دست و بازو کی حفاظت بھی ضروری ہے کہ یہ وہاں استعمال ہوں جہاں استعمال کرنے کی اجازت انہیں عطا کرنے والے نے دی ہے۔ قدرت کی یہ نعمت تشکر چاہتی ہے۔ خدا بھی تو کہتا ہے کہ جو اس کے لئے نکلتا ہے وہ اس کا بازو بن جاتا ہے۔ ایک خیال جو ذہن میں لائیے کہ جہاں اللہ بندہ مومن کا ہاتھ بن جائے یا آپ دست و بازو کہہ لیں تو طاقت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔ کبھی تو خیبر کا دروازہ بھی شیر خدا کے ہاتھ سے اکھڑ جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے بازو ہمارے ہیں کب، کہ ہم تو انہیں گروی رکھ چکے ہیں کہ یہ کسی کے کہنے پر ہی اٹھ سکتے ہیں وگرنہ تو انہوں نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ اس بات کو بھی کیسے رد کیا جا سکتا ہے کہ اپنے بل بوتے پر لڑنا درست مگر پہلے اس کے لئے اپنا جائزہ لینا اور حکمت اختیار کرنا بھی تو ضروری ہے مگر بات یہ ہے کہ کیا ہمارا رخ بھی اس طرف ہے یا نہیں۔ اس مقصد کے لئے کچھ اپنے مفاد چھوڑنا پڑتے ہیں اور پھر پورے یقین کے ساتھ اس مقصد کی طرف یکسوئی ضروری ہے اور ان تمام چیزوں سے بڑھ کر وہ نظریہ جومقاصد سے زیادہ نظریہ ضرورت بن چکا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے پوری ایک کیمسٹری ہے جو آرگینگ ہے۔ پھر جذبہ روبہ عمل ہوتا ہے آپ تصور کریں کہ اس کردار کے حامل لوگ کتنے پر خلوص اور جاں نثار قسم کے ہونگے یہ ایک سوچ ہے جو لہو سے عمل میں ڈھلتی ہے۔ اقبال نے یہی روح مسلمانوں میں پھونکنے کی کوشش کی۔ فیض کا مصرع ہی جگہ بناتا ہے جور کے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے جو بھی ہے اپنا جائزہ لینا ازبس ضروری ہے کہ میرا مصرف آخر ہے کیا۔ میری حیثیت کیا ہے اور کیا میں اپنی ملت کے لئے کسی درجے میں کارآمد ہوں بھی یا نہیں۔ جب ذمہ داری کو محسوس کیا جائے گا تو آپ کی ترجیحات بدلنے لگیں گی۔ ٹھیک نظام آپ کو اپنے حساب سے ایڈجسٹ کرنا چاہتا ہے اور آپ کس حد تک اس کا حصہ بنے بغیر اس کے غلط ہونے کا احساس سوسائٹی کو دلا سکتے ہیں ایک بات بڑی مشکل سی لگتی ہے کہ دوسرے کے حقوق کا احساس کیا جائے اور خود ایثار کیا جائے۔ ایک بہت ہی بھلا دیا گیا کام اپنے وطن کے ساتھ لگائو ہے کہ اس کے مفاد کو کس طرح ترجیحات میں اولین سطح پر رکھا جائے اور اپنی طاقت اس کے لئے استعمال کی جائے۔ یہ تب ہی ہو گا کہ لوگوں کو انصاف ملے‘ تحفظ ملے اور عزت نفس۔ پتہ نہیں یہ الفاظ ہیں خیال ہے یا تمنا۔ آزادی کی اتنی بڑی نعمت جو لاکھوں قربانیوں کے بعدمیرے ہاتھ آئی ہے کے لئے میں خود کو متفکر نہیں پاتا تو کانپ اٹھتا ہوں۔ آئیے پاکستان کے ساتھ محبت کریں اور اس کے دست و بازو بن جائیں۔