ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہر جگہ زیر بحث ہے۔پی ٹی آئی اس فیصلے کو تبدیل شدہ اور جلدی میں لکھا ہوا فیصلہ قرار دے رہی ہے اور پی ڈی ایم اس فیصلے کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ایک میڈیا ٹرائل کے ذریعے اسے فارن فنڈنگ کیس کا نام دے رہی ہے اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ عمران خان نے یہود و ہنود سے فنڈ لے کر پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کا پلان بنایا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک متنازعہ فیصلہ ہے اور اس نے الیکشن کمشن کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ایک بات جو اس فیصلے میں واضح کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی فارن فنڈز کی مرتکب نہیں ہوئی بلکہ یہ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں کو فارنر قرار دیا گیا ہے ان میں سے بیشتر لوگ ٹیلی ویژن پر بیان دے رہے ہیں کہ وہ پاکستانی ہیں اور ان کو غلط فہمی کی بنا پر فارنر قرار دیا گیا ہے۔امید ہے کہ جب یہ ریفرنس سپریم کورٹ میں جائے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔تاہم پاکستانی سیاست میں بیرونی پیسے کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے ایمل ولی خان نوجوان ہیں۔شاید انہیں یاد نہ ہو کہ کئی پاکستانی سیاستدان بھارت کا دورہ کرتے تھے اور انہیں علی الاعلان روپیوں کے تھیلے تحفے میں دیے جاتے تھے اور بعض سیاستدان برسوں افغانستان میں مقیم رہے اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہے اور یقینا افغانستان کے فنڈز پر پلتے رہے۔بے نظیر کی حکومت گرانے کے لئے اسامہ بن لادن کی فنڈنگ بھی عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔درحقیقت یہ اس عمل کی ایک منفرد مثال ہے کہ فارن فنڈنگ کو پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لئے استعمال کیا گیا۔جو سیاستدان لیبیا اور عراق سے مالی امداد لے کر پاکستان میں سیاست کرتے رہے ہیں وہ بھی اس حکمران اتحاد کا حصہ ہیں۔ایم کیو ایم کے لوگوں کی بھارت میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنا اور بھارت سے مالی امداد لینا تو ابھی کل کی بات ہے۔حیرت کی بات ہے کہ بیرونی امداد پر پلنے والے سیاستدان عمران خان کو اسی جرم کے تحت سیاست سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔اسی موقع کے لئے شاعر نے کہا تھا کہ اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں‘ہماری آنکھ سے تنکے نکالنے والے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تاریخی شکست کھانے کے بعد حکمران اتحاد کے اوسان خطا ہو گئے ہیں اور ان کی حکومت 25کلو میٹر کے علاقے میں محدود ہو کر رہ گئی ہے چونکہ سیاسی میدان میں انہیں اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے، اس لئے وہ عمران خاں سے جان چھڑانے کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پر انہوں نے پی ٹی آئی کے دیے گئے استعفے بھی قسط وار قبول کرنے شروع کر دیے ہیں تاکہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ آ سکے۔اس کے ساتھ ہی گوئیلز کی تھیوری کے مطابق وہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کو اس تواتر کے ساتھ فارنگ فنڈنگ کیس کا نام دے رہے ہیں کہ لوگوں کو یقین آ جائے کہ یہ فارنگ فنڈنگ ہی ہے ابھی تک متحدہ حکومت کے تمام حربے ناکام ہوئے ہیں۔بدقسمتی سے یہ بوڑھے سیاستدان ابھی تک 80اور نوے کی دہائی میں رہ رہے ہیں اور سوشل میڈیا کی طاقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔لوگوں کو بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں ہے جتنا 30,40سال پہلے تھا۔اب لوگوں کے پاس اطلاعات کے متبادل ذرائع موجود ہیں۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی ایک حد تک جھوٹ کا ساتھ دے سکتے ہیں کیونکہ انہیں بھی عوام کی پذیرائی ہی زندہ رکھتی ہے۔اسی لئے ہمیں نظر آتا ہے کہ بعض ثقہ بند ن لیگی صحافی بھی حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ اگر وہ عوامی جذبات کو یکسر نظر انداز کریں گے تو ان کی صحافت خود خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور اقتدار میں پہاڑ ایسی غلطیاں کی ہیں۔ان کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینا بھی ایک غلطی تھی۔آج اگر پی ٹی آئی قومی اسمبلی کا حصہ ہوتی تو یقینا پی ایم ڈی اتحاد کی حکومت کے لئے یہ ممکن نہ ہوتا کہ وہ احتساب کے نظام کو یوں درہم برہم کر سکتے۔پنجاب میں حکومت ملنے کے بعد یہ بعید از قیاس نہیں تھا کہ پی ٹی آئی مرکز میں بھی دوبارہ حکومت لینے میں کامیاب ہو جاتی۔ہمدردی کی جو لہر پی ٹی آئی کے لئے عوام میں موجود ہے اس نے بہت سی سیاسی جماعتوں کو اپنا نقطہ نظر بدلنے پر مجبور کردیا ہے اور وہ اپنے کئے پر پچھتا رہی ہیں۔عوامی ردعمل کا تمام قوتوں نے درست اندازہ نہیں لگایا تھا۔عمران خان کا بیانیہ عوام میں بے حد مقبول ہے اور عوام اس کے ساتھ کھڑے ہیں اس لئے شاید یہ ممکن نہ ہو کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو کسی تکنیکی طریقے سے سیاست سے باہر نکالا جا سکے۔انہیں آخر کار سیاست کے میدان میں ہی پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ایک اور بات جو تواتر کے ساتھ پی ڈی ایم کے چھوٹے بڑے رہنما میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ عمران خان عدالتوں کا لاڈلا ہے اور عدالتیں اس کے لئے ایک نرم گوشہ رکھتی ہیں۔حالانکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔پنجاب کے ضمنی انتخابات تو ایک کامن سنس کا کیس تھا۔یہ مقدمہ کسی بھی عدالت میں پیش ہو جاتا‘ اس کا فیصلہ وہی ہوتا جو اس معزز عدالت نے کیا۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تحریر شدہ قانون کو بھی موم کی ناک سمجھتے ہیں اور اسے اپنے موقف کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک آڈیو ٹیپ کے مطابق جب جناب شہباز شریف‘جسٹس قیوم کے ساتھ بینظیر کے کیس کے بارے میں نورا کشتی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تو جج کو تو استعفیٰ دینا پڑا لیکن سفارش کرنے والا سیاستدان مکمل طور پر محفوظ رہا۔اسی طرح جناب نواز شریف کا سزا یافتہ ہونے کے باوجود علاج کے لئے بیرون ملک چلے جانا اور حسب وعدہ واپس نہ آیا بھی عدالت ہی کا مرہون منت ہے۔ان کی گارنٹی دینے والے جناب شہباز شریف سے بھی جواب طلب نہیں کیا گیا اور وہ وزیر اعظم کے عہدے پر متمکن ہیں۔وہ اور ان کا فرزند ارجمند خود اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ضمانت پر ہیں۔محترمہ مریم نواز سزا یافتہ ہونے کے باوجود ضمانت پر ہیں اور ن لیگ کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔اس سے یقینا یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہی خاندان پاکستان کی عدالتوں کا لاڈلا خاندان ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ خود اپنے فیصلے کرنے سے قاصر ہیں اور ہر سیاسی معاملے کو عدالتوں کے روبرو پیش کیا جاتا ہے اور عدالتیں ہی حتمی فیصلے کرتی ہیں۔یہ پاکستان کی سیاست کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔فی الحال نیب کا ادارہ مکمل طور پر بے دست و پا کر دیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن صرف یکطرفہ کارروائیاں کر رہا ہے۔دم توڑتی ہوئی ق لیگ کو بھی نئی زندگی دے دی گئی ہے اور جس کارنامے پر چودھری شجاعت حسین کو شرمندہ ہونا چاہیے تھا وہ اس پر نازاں ہیں اور ایک اور سازش کے لئے تیاری کرتے نظر آتے ہیں۔ان کے خاندانی رکھ رکھائو اور یکجہتی کو اب قصہ پارینہ سمجھنا چاہیے۔ہماری سب سیاسی جماعتیں جمہوریت کو شکست فاش دینے کے لئے دن رات کوشش کر رہی ہیں۔بے چارے عوام ہی حکمرانوں کی آخری ترجیح ہیں۔