لاڑکانہ سے ابھی کچھ دیر پہلے ہی واپسی ہوئی۔گزشتہ کالم میں بھٹو خاندان کی آخری چشم و چراغ صنم بھٹو کی سیاست میں ممکنہ واپسی پر لکھتے ہوئے اس امکان کا بھی اظہار کیا تھا کہ اگر پیپلزپارٹی کے ایک حلقے کے مطابق پارٹی چیئرمین محترم صدر آصف علی زرداری ،اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری اور پھر محترمہ فریال تالپور کی گرفتاری کی صورت میں کیا وہ پارٹی کی قیادت سنبھال سکتی ہیں؟ صنم بھٹو نے گڑھی خدا بخش کے آبائی قبرستان میں اپنی شہید بہن محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت خاندان کے دیگر بزرگوں اور بھائیوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی ۔اپنے بھانجے بلاول کے پہلو میں اسٹیج پر بھی بیٹھیں۔مگر انہوں نے نہ صرف حسب روایت کوئی خطاب کیا اور نہ ہی 26دسمبر کی شب ہونے والی پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی ۔ پارٹی کے ایک انتہائی سینئر رکن سے جو اس اجلاس میں شریک تھے ، میں نے محترمہ صنم بھٹو کے حوالے سے استفسار کیا کہ۔’’کیا رسمی یا غیر رسمی طور پر مستقبل کے حوالے سے محترمہ صنم بھٹو کے پارٹی میںکردار کا کسی سطح پر ذکر آیا ۔‘‘ اس پر انہوں نے انتہائی دو ٹوک الفاظ میں کہاکہ مجھے خود حیرت ہے کہ میڈیا کے حلقے میں یہ پھلجڑی کیوں چھوڑی گئی ۔اپنے والد اور بہن کی شہادت کے بعد سے وہ ہر سال ہی روایت کے مطابق 14اپریل اور 27دسمبر کو لاڑکانہ آتی ہیں۔مگر اُن کی یہ آمد محض اپنے والد اور بہن سے عقیدت اور تعلق کے حوالے سے ہوتی ہے۔تاہم انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جولائی کے الیکشن میں انہوں نے لیاری میں اپنے بھانجے بلاول بھٹو زرداری کی نشست بچانے کے لئے ضرور خاموشی سے ایک دو، دورے کئے مگر اس سے زیادہ اُن کا ماضی میں نہ کوئی سیاسی کردار رہا اور نہ مستقبل میں وہ اُن کا کوئی کردار دیکھ رہے ہیں۔اس سے پہلے کہ صنم بھٹو کے سیاسی کردارکے حوالے سے آگے بڑھوں ۔ لاڑکانہ ہی میں ڈھلتی شام کے دوران جب صدر آصف علی زرداری کا خطاب جاری تھا تو یہ بریکنگ نیوز آچکی تھی کہ محترم آصف علی زرداری ،محترمہ فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری سمیت اُن تمام172افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ یعنی ECLمیں ڈال دئیے گئے ہیں۔جن پر جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ براہ راست یا بالواسطہ زرداری خاندان کی مبینہ کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔پارٹی قیادت یا ان سے متعلق سرکاری افسروں اور بزنس مینوں کے ناموں کی گرفتاری اور ای سی ایل میں نام ڈالنے کی بازگشت تو ایک عرصے سے سنائی دے رہی تھی مگر سندھ کے منتخب وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے کے بعد لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت کی تو کہیں گنتی نہیں شروع ہوگئی کہ ابھی وزیر اعلیٰ سندھ کا ای سی ایل میں نام آئے 12گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ سندھ میںتحریک انصاف کے کھلاڑیوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔ کیا تحریک انصاف کی حکو مت اور اس سے بھی زیادہ معروف معنوں میں اسٹیبلشمنٹ کے مقتدر ادارے خان صاحب کی حکومت کو اس حد تک جانے پر اپنا خاموش کردارادا کریں گے۔اس بارے میں ذراانتظار کرنا پڑے گا کہ خود تحریک انصاف کی حکومت جس معاشی بحران میں گھری ہے اُس سے میں شریف خاندان کے بعد زرداری کمپنی پر اتنے شدید حملے کے بعد جو سیاسی اصطلاح میں ملبہ گرے گا اُسے سنبھالنے کی کیا وہ متحمل ہوسکے گی؟ جہاں تک صنم بھٹو کے مستقبل میں سیاسی کردار کا تعلق ہے تو اسے چھیڑ تو بیٹھا مگر مجھے لگتا ہے کہ ایک دو اڑتی خبروں پر کالم باندھنے میں ذرا سے بھی زیادہ جلد بازی کا شکار ہوگیا۔کہ کہاں اس وقت کی چیختی چنگھاڑتی بدزبانی سے بدلگامی بلکہ گالم گلوچ میں چار قدم آگے پہنچی سیاست ،کہاں بی بی صنم بھٹو جن کی زبان کھلوانے کے لئے برسوں سے ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔مگر وہ بڑی سختی سے برسہا برس سے تما م تر خاندانی المیوں اور بحرانوں کے باوجود عملی سیاست سے گریزاں رہیں۔سیاست اور صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جس طرح میں نے پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کو دیکھا ہے اُ س میں کم ازکم محترمہ صنم بھٹو کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ معروف اصطلاح میں apoliticalتھیں۔ اوررہیں گی۔ اگر انہیں سیاست سے ذرا سی بھی دلچسپی ہوتی تو وہ 14اپریل 1977ء میں اپنے بھائیوں کی جلاوطنی اور پھر اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو اور بہن بے نظیر بھٹو کی طویل نظر بندیوں کے دوران ہی ’’بھٹوز‘‘ کی سیاست کا پرچم اٹھا لیتیں اور اس کڑے وقت میں انہیںعوامی پذیرائی بھی ملتی۔اُن کی بہن محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب پہلی بار اقتدار سنبھالا تو اُس وقت وہ بھی ہمارے دیگر سیاسی گھرانوں کی طرح کوئی خصوصی عہدہ قبول کرسکتی تھیں اور پھر 27دسمبر2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہادت کے بعد جب اُن کے بھانجے بلاول محض 18سال کے تھے۔اور ایک حد تک پارٹی اور عوام میں بھی محترم آصف علی زرداری اتنے معذرت کے ساتھ ،انگریزی لفظ acceptableاستعمال کرنے کی جسارت کررہا ہوں،تو یہ ایک اچھا وقت تھا کہ وہ بلاول بھٹو کی سرپرست کی حیثیت سے پارٹی کمان سنبھال لیتیں۔ حالیہ برسوں میں کم از کم ایک بار یا دداشت کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ غالباً اکتوبر 2015ء میں جب اس بات کا شور اٹھا کہ بلاول بھٹو زرداری مستقبل میں پارٹی کی کمان سنبھالنے جا رہے ہیں اس کیلئے مزار قائد پر ایک بڑے عوامی جلسے کا بھی اہتمام کیا گیا تو پہلی بار صنم بھٹو اپنے بھانجے کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر مسکراتی نظر آئیں۔جو اس بات کا پیغا م دے رہا تھا کہ وہ ایک حد تک اس مشکل گھڑی میں اپنی بہن کے نوجوان بیٹے کو حوصلہ دینے کے لئے عملی سیاست میں حصہ لینے کی شاید تیاری پکڑ رہی ہیں۔مگر اس جلسے کے بعد خود بلاول ایک طویل عرصے کیلئے لندن چلے گئے۔کوشش کرتا ہوں کہ افواہوں اور سنی سنائی باتوں کو تحریر میں لانے سے گریز کروں کہ یہ مروجہ صحافتی آداب کے خلاف ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ہماری روایتی صحافت کے آداب کا جنازہ کب کا اٹھ چکا۔خود میں بھی کالم سے رخصت ہوتے ہوئے اس بات کا اعتراف کرلوں کہ یہ موضوع فی الوقت ہرگز اس بات کا متقاضی نہ تھا کہ اس پر ایک نہیں دو کالم باندھے جاتے۔مگر ہاں یہ بھی تو حقیقت ہے کہ کئی دنوں تک محترمہ صنم بھٹو کی سیاست میں ممکنہ آمد کی خبر یں بریک ہوتی رہیں۔مگر انکی جانب سے بھی کوئی تردید نہیں کہ poorکالم نویسوں کا بھی تو یہ المیہ ہوگیا ہے کہ کالم کا پیٹ بھرنے کے لئے رائی کا پہاڑ بنانے کے لئے بے چین پھرتے ہیں۔ (ختم شد)