معمول میں تھوک کے حساب سے ہونے والی شاعری تو بعض شعرا کی حرکتوں اور خود نمائیوں کی بنا پر اتنی معمولی ہو چکی ہے کہ لوگوں نے نوٹس لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ پبلشرز بتاتے ہیں کہ ’افراطِ شر‘ کے اس دور میں لوگوں نے شاعری کی کتاب خریدنا ہی چھوڑ دی ہے۔ چھوٹے شہروں میں بھی لوگ مشاعرہ مشاعرہ کھیلتے ہیں لیکن لاہور میں آ کے تو عجب تماشا دیکھا کہ جس شاعر پر غلطی سے بھی دو مصرعوں کا نزول ہو جائے تو وہ اسے ماتھے پہ لگا کے جب تک آدھے شہر میں ڈھنڈورا نہ پِیٹ لے، اسے نیند نہیں آتی۔ سوشل میڈیا نے تو اس صدمے میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا آج کا شاعر کتابوںسے زیادہ لطیفوں اور ڈراموں کے مضحک کرداروں میں زندہ ہے۔سلیم احمد جو جدید اردو شاعری اور تنقید کا ایک بڑا نام ہے، نے تو بہت عرصہ پہلے وارننگ دے دی تھی: ہو رہی ہے ہر طرف منمناتی شاعری منمناتی ، چنچناتی ، بھنبھناتی شاعری یہ بات بعض شاعروں کے فہم سے اونچی ہے کہ اپنی تشہیر، بدنامی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ خود ستائی تو جگ ہنسائی کی بڑی بہن ہوتی ہے۔ قاری سمجھتا ہے کہ زود گو اور جبری داد طلب شاعر نے اس سے فیصلے کا حق چھین لیا ہے۔ ہمارے شاعروں کو یہ بات کون سمجھائے کہ اچھا شعر تو بے نیازی اور بد ذوقی کا سینہ چیر کے دلوں میں ترازو ہو جاتا ہے۔ آج سے چونتیس سال قبل چینیز لنچ ہوم کے حلقۂ ادب کے اجلاس میں ایک معمولی سی شکل کے غیر اہم سے شاعر نثار اکبر آبادی کی زبان سے محض ایک بار سنا ہوا یہ شعر آج بھی دل کی دیوار پہ جلی اشتہار کی مانند کندہ ہے: مَیں کب سے ہاتھ میں کاسہ لیے کھڑا ہوں نثار اگر یہ زخم بھی ہوتا تو بھر گیا ہوتا مَیں اکبر معصوم کو نہیں جانتا، سنا ہے سندھ کے کسی قصبے سانگھڑ میں ہو میو پیتھی کی پریکٹس کرتا تھا، ٹانگ سے معذور تھالیکن مَیں اس کے اِس شعر کا کیا کروں، جو اپنے پورے تخلیقی وفور کے ساتھ میرے حواس سے چمٹا ہوا ہے: اب مجھ سے تِرا بوجھ اٹھایا نہیں جاتا لیکن یہ مِرا عجز ہے ، انکار نہیں ہے یہ تو ہو گئی روایتی شاعری کی بات، اب ذرا غیر روایتی شاعری پہ بھی ایک نظر ڈالیں کہ جس نے ہمارے ادبی و غیر ادبی حلقوں میں اپنے انوکھے پن کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی۔ با معنی باتیں کرتے کرتے کبھی بندہ اس قدر اکتا جاتا ہے کہ لا یعنی راگ الاپنے لگتا ہے۔معقولیت، نامعقولیت میں سکون ڈھونڈتی ہے۔ آج سے تقریباً ایک صدی قبل جب پنجاب میں میاں محمد بخش اور پیر فضل گجراتی جیسے شعرا کا طُوطی بول رہاتھا،تو امام دین گجراتی نے ان دیو قامتوں کے بیچ توجہ حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے شعر کہنے شروع کیے: حکومت سے کہہ دو جہازوں کو روکے یہ سُتے ہوؤں کا تراہ کاڈتے ہیں مجھے یاد ہے شیخوپورہ میں ایک اوکھے، انوکھے اور نویکلے شاعر ماسٹر الطاف سے میرا مزے دار تعارف اُس کی اِس عجیب و غریب نظم سے ہوا تھا: بارھیں برسیں کھٹن نوں گھلیا، کھٹ کے لیاندا رَس … لَے دَس!!! ایک دن وہ اپنے ایک آوارہ گرد بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگا: کُج نہ کُج تے چبلا سِکھ لَے پڑھیا نئیں تے طبلہ سِکھ لَے اس میں کوئی شک نہیں کہ ظفر اقبال جدید اردو غزل کے بڑے اہم نمایندہ ہیں، انھوں نے اردو غزل میں بے شمار اور عجیب و غریب تجربے کیے ہیں۔ ایک زمانے میں جب ان کی رطب و یابس، یاوہ گوئی کی حدوں کو چھونے لگی اور ’آبِ رواں‘ کے عروج کے بعد معاملہ ’چندبنینیں ہیں چند کچھے ہیں‘ تک پہنچا تو فیصل آباد کے مقصود وفا اور فیضی نے ردِ عمل اور سنجیدہ غزل کے دفاع کی خاطر اپنے اپنے دفتر سے تین دن کی چھٹی لے کر ویسی ہی تجرباتی شاعری کے نہ صرف ڈھیر لگا دیے، بلکہ ’سہ روزہ ہذیان‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی منظرِ عام پہ آ گئی، جس کے اوپر شاعر کا نام ’ڈفر اقبال ‘ درج ہے اور جو کسی زمانے میں انارکلی کے فٹ پاتھ سے میرے ہاتھ لگی، اس کا ایک شعر دیکھیے: اِک آخری ٹرائی کا موقع نہیں ملا ابّا کو میرے بھائی کا موقع نہیں ملا اسی طرح جب جدید نظم کے حُب داروں نے غزل کے خلاف تحریک چلائی تو اسے ’وحشی صنفِ سخن‘، آؤٹ آف ڈیٹ شاعری اور جانے کیا کچھ کہہ ڈالا۔ ان لوگوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ غزل میں ردیف قافیے کی پابندی کو ئی بڑی بات کہنے میں مانع ہوتی ہے۔ اس لیے انھوں نے ردیف کا مذاق اڑانے کے لیے اس طرح کے شعر کہنے شروع کیے: اِک انجمن بنائی ہے عبدالغفور نے اور اس کے سر پرست ہیں عبدالشکور نے جب لوگوں نے پوچھا کہ اس آخری ’نے‘ کا کیا مطلب؟ تو جواب دیا گیا کہ یہ تو ردیف کی مجبوری ہے، اسی طرح ایک ستم ظریف نے قافیے کے جبر کو اس انداز میں نشانہ بنایا: پکڑے ہے نہ چھوڑے زندگی ہے یہی اپنا نچوڑِ زندگی ہے لمحۂ موجود کے ایک بسیار گو لالہ بسمل تو معروف ہی اسی طرح کی شاعری سے ہوئے: عاشقوں کے جنگل میں ، مہ رُخوں کی وادی میں سب زیاں ہمارے ہیں ، سبزیاں تمھاری ہیں چلتے چلتے روایتی اردو شاعری کے اسی باغی یعنی لالہ بسمل کی یہ نظم بھی ملاحظہ کرتے چلیں: میرا محبوب ابھی/ کوچۂ رقیب سے/ لوٹ کر نہیں آیا/ ادھر شہر بھر میں چرچے ہیں / سر بریدہ لاوارث لاش کے / دل میں ایک خدشے نے / عجب سر اٹھایا ہے / کہ خدا نہ کرے / یہ لاوارث لاش / کسی اور کی ہو !!