آج سے چونتیس برس قبل یونیوسٹی میں داخلہ لینا مجھ جیسے دیہاتی کی زندگی کا سب سے انوکھا اور کارآمد تجربہ تھا۔ شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے اُٹھ کے پنجاب کے دل لاہور میں حیرانی بن کے دھڑکنے لگ جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ پھر اورینٹل کالج تو لاہور کا بھی جگر تھا۔ گزشتہ دنوں اسی اورینٹل میں امجد صاحب کے لیے منعقدہ تقریب میں راقم نے اپنے مضمون میں انھیں مشورہ دیا کہ وہ اورینٹل میں داخلہ لینے والے ہر اُستاد اور طالب علم سے اپنی نظموں کی رائلٹی وصول کیا کریں کیونکہ یہاںکے جذباتی معاملات میں جتنا امجد کام آتے ہیں، اتنا تو جدِ امجد بھی کام نہیں آتے۔ عارفہ ثمین اختر کو بھی مَیں نے پہلی بار انھی سیڑھیوں سے سہیلیوں کے ساتھ اُترتے دیکھا تھا لیکن اس کی گوری رنگت، سٹائلش بال اور مستانی چال کے باوجود میرا دھیان اس کی مسکراہٹ یا شوخ جذبوں کی طرف نہیں گیا بلکہ اُس دبدبے کی طرف گیا جو ہر جونیئر پہ اپنے سینئر کی طرف سے قدرتی طور پر مسلط ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن ہر جگہ میراتعارف اپنے کلاس فیلو کے حوالے سے کراتے ہیں کیونکہ پورا ایک سال ’غالبیات‘ کا پرچہ ہم دونوں کلاسوں نے سجاد باقر رضوی سے ایک ساتھ پڑھا تھا۔ یہ چھَیل چھبیلی عارفہ بھی اسی کلاس میں تھی، لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ہمیشہ سے اپنی سینئرز میں بڑی بہنوں والی چھب دکھائی دیتی رہی (جمیل عدیل سے معذرت کے ساتھ) ہمارے ہاں تو بڑی بہن ماں سمان سمجھی جاتی ہے۔ اپنے دیہاتی پن کے ساتھ ساتھ احترام کی ایک وجہ شاید عارفہ کے ضیاء الحسن، قمر بودلہ، ظفر بیگ، خالد شیرازی، ریاض آصف، سجاد شاہ، یوسف نسیم، اعظم ملک، میاں ارشدجیسے ایک درجن مونچھ مروڑ قسم کے کلاس فیلوز بھی تھے۔ تیسرے یہ کہ ہماری اپنی کلاس میں دس لڑکوں کے مقابل پچاس لڑکیاں بیٹھتی تھیں۔ میری دادی نے سنا تو کانوں کو ہاتھ لگا کے کہا: توبہ توبہ قیامت دیاں نشانیاں نیں۔ اُسی زمانے میں، مَیں نے اپنے ایک افسانے کے دیہاتی ہیرو کا موازنہ شہری ہیروئن سے ان الفاظ میں کیا تھا: ’’اس کے اور میرے درمیان تو فاصلہ ہی اتنا تھا جہاں عشق کرنا تو کجا، عشق ہو جانے کے اِمکانات بھی صفر ہوا کرتے ہیں۔ کالج میں ہم دو انتہاؤں کا درجہ رکھتے تھے۔ وہ ماڈرینٹی کی آخری حد، مَیں پسماندہ ترین تہذیب کا پروردہ… وہ سبزی کو بھی چھری کانٹے سے کھانے والی، مَیں سینڈوچز کھا کے کہنی سے منھ پونچھنے والا… وہ بیڈ ٹی کی عادی، مَیں لسّی میں بند ڈبو کے کھانے والا… وہ مائیکل جیکسن کی دُھنوں پر تھرکنے والی، مَیں عالم لوہار کے گانے سن کے جوان ہوا تھا… وہ حسینہ معین کے ڈراموں کی ہیروئن، مَیں ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کا صالح کردار… مَیں لوگوں کے سامنے لڑکوں سے گلے ملنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا، وہ سرِ عام لڑکیوں کے چٹاک پٹاک بوسے لیتی… میرے ماحول میں فرسٹ کزن سے بھی پردہ کیا جاتا، وہ ہر لڑکے کو یار کہہ کے مخاطب کرتی… وہ مغربی ماحول کا چلتا پھرتا ماڈل، مَیں رجعت پسندوں کی کلاس کا مانیٹر… وہ لب آشنائے خندہ، مَیں دل محیطِ گریہ… اُدھر عشرت ہی عشرت، اِدھر عُسرت ہی عُسرت… وہ ’جو بڑھ کے تھام لے مینا اُسی کا ہے‘ کا واضح اشتہار، مَیں سہج پکے سو میٹھا ہو‘ کا دل و جان سے قائل… وہ اونچی دُکان، مَیں پھیکا پکوان… اس میں اور مجھ اتنا ہی فرق تھا جتنا پریت اور بھوت پریت میں… وہی راجا بھوج اور گنگوا تیلی والا معاملہ تھا۔‘‘ عارفہ خوبصورت تو تھی ہی، ساتھ سندر شاعری بھی کرتی تھی، حکیم جی کے بقول وہ موزوں طبع ہی نہیں، موزوں بھی تھی۔ اس لیے ہمیں شک یا امید تھی کہ کلاس میں سب سے پہلا عشق اسی کا مشہور ہوگا۔ کچھ ہی عرصے بعد کالج میں عارفہ ثمین اختر کا یہ شعر بھی گونج رہا تھا: دلوں کے سودے تھے دل سے کرتے قدم قدم پر یہ سوچ کیسی بہت اناڑی ہو شہرِ اُلفت میں پھر رہے ہو دماغ لے کر گویا شاعری خود شاعری کرنے لگی تھی۔ ہمارا شک پَک میں تبدیل ہونے لگا۔ یونیورسٹی کا ایک سال پلک جھپکتے میں گزر گیالیکن کوئی بریکنگ نیوز نہ آئی۔ ایک دن اچانک پتہ چلا کہ ملازمت اور ملائمت کے باعث اُس کی خدمات وفاق اور سسرال کے سپرد کر دی گئی ہیں۔ وہ کلاس میں کوئی کہانی بنانے سے پہلے ہی فسانہ ہو گئی۔ یعنی اپنی شکل، شاعری اور شکوک سمیت منظر سے غَیب کے علم کی طرح غائب ہو گئی۔ اس کی کلاس کے سارے ہیرو اپنا سامنھ لے کے رہ گئے۔ اب کوئی تیس سال کے بعد اسلام آباد سے اس کی کتاب ’’سرِشام‘‘ آئی ہے تو مجھے امجد اسلام امجد کا ایک واقعہ یاد آ گیا جو ہمارے مشاعرے میں مدعو تھے، کسی نوجوان نے ’’ایک لڑکی‘‘ والی نظم کی فرمائش کی تو ہنس کے کہنے لگے: چھوڑو یار! وہ تو اب نانی بن چکی ہے! … دوستو! اِدھر بھی آخری خبر یہی ہے کہ ہمارے زمانے کی ایک قابلِ داد لڑکی اب دادی بن چکی ہے۔ اس لیے باقی باتیں چھوڑیے اور اکادمی بازیافت کراچی سے دیدہ زیب انداز میں چھپی کتاب کی خوبصورت شاعری سے مستفید و محظوظ ہوتے جائیے۔ اُٹھا کے ہاتھ کبھی مجھ کو مانگتے تو سہی مَیں منتظر ہی رہی ، تم پکارتے تو سہی ضرور کیا تھا کہ ناکامیاب ہی ہوتے کمند چاند پہ اک بار پھینکتے تو سہی کہاں ہیں وہ جنھیںشکوہ ہے نسلِ نَو سے ثمین کہ گیلی مٹی کو پیکر میں ڈھالتے تو سہی تمھارے مان پر تن کے کھڑی ہوں کہ خود پر وار سارے روک لینا منافع ہو نہ ہو ، اتنا تو کرنا محبت کے خسارے روک لینا ٭٭٭٭٭ سب لڑکیاں لگتی ہیں پھولوں کی طرح مجھ کو کھلنا بھی بہت جلدی اور جلد بکھر جانا اک طرف زلف ، اک طرف مژگاں جال کے بیچ جال! کیا کہیے یہ تِرا حسنِ ادا تھا یا مِرا حسنِ نظر تم چلے آئے تو منظر شام کا اچھا لگا عشق کی مٹی کو آبِ اَشک سے گوندھا گیا چاک پر بنتا گیا کچا گھڑا بے ساختہ دنیا میں کامران وہی ہے جو اپنے جذبات کے ساتھ ساتھ زندگی کے رموز اور زمانے کی اوقات پہ بھی نظر رکھے۔ عارفہ یہ راز بہت جلد جان گئی تھی کہ: یہ الاؤ آتشِ عشق کا ، کہیں چپکے چپکے جلا کرے کہ دھواں اُٹھے نہ شرار ہو کبھی اس طرح تو ہوا نہیں آخر میں اس کا تجربہ، مشاہدہ اور اعتراف اسی کی زبان سے سنیے اور سَر دُھنیے: سیکھ گئی بالآخر مَیں بھی جینے کے آداب جب سے دیکھے ایک ہی ڈال پہ کانٹے اور گلاب