میری حیرت کا تصور ہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب‘ بنا دیتی ہے میری آنکھوں کو وہ خالی نہیں رہنے دیتی کہیں تارا کہیں مہتاب بنا دیتی ہے قربان جائوں میں اس ذات کو جو سائے میں ٹھنڈک رکھتی ہے اور دھوپ میں تمازت کہ ہر صورت زندگی محسوس ہونے لگتی جب فطرت پر نظر کریں تو اس کی آیات کہاں کہاں جلوہ گر نہیں ہیں۔ اب کے جو بہار اتری ہے تو اپنے سارے رنگ لے کر اتری ہے آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر۔ منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ‘ اللہ اللہ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے‘ ہمارے دوست اشرف شریف نے چیتر کا ذکر کیا اور دوستوں نے پنجاب کا بسنتی رنگ پہنا کہ یہ ثقافت ہے۔ ویسے رنگ نے سارے اکھاں دے۔ پھل تے کسے وی رنگ دے نیں ’’میری بیگم نے میری توجہ آنگن میں لگے ہوئے مسمّی اور گریپ فروٹ کے پودوں کی طرف دلائی کہ جن پر سفید پھول اترے ہوئے ہیں۔ پھول جھڑتے ہیں تو نیچے سفیدہ سابچھ جاتا ہے۔ اس منظر سے کہیں آگے وہ مہک ہے جو مشام جان بن جاتی ہے۔ ان پھولوں کی خوشگوار خوشبوچار سو میں پھیلی ہوتی تھی۔ مجھے شروع ہی سے فطرت سے پیار ہے۔ میں نے اس کے بعد انار کے پودے کو دیکھا جو گہرے سبز رنگ کا لباس پہن چکا ہے اس کے ساتھ چائنی لیموں کا پودا جس سے سارا سال پھل اترتا ہے۔ ایک ہی وقت میں پھل اور پھول بھی جیسے اس پر پڑ جاتے ہیں۔ دیسی لیموں کے دو پودے جن پر بڑے بڑے لیموں لگتے ہیں مجھے اچھا لگتا ہے کہ جب کوئی پڑوسیوں کا بچہ آ کے کہتا ہے ایک دو لیموں دے دیں سکنجبین میں ڈالنے ہیں یہ ہماری روایات کا حصہ ہے اپنائیت محبت۔ کتنا اچھا دور تھا۔ گھر میں کھانا پکتا تو امی کہتیں یہ سالن پکڑو اور ساتھ والوں کے گھر دے آئو۔ کبھی کہتی جائو آپا حاجرہ کے گھر سے لسی پکڑ لائو خوشی غمی میں سب شریک ہوتے تھے۔ یہی چیتر جسے بہار کہیے ہمارے پنجاب میں زور شور سے منائی جاتی تھیں۔ میرے پیارے قارئین میں اصل میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ اللہ خود خوبصورت ہے اور خوبصورتی پسند کرتا ہے تبھی تو اس نے بہار کو اتارا‘ زمین کو جو مردہ تھی زندہ کیا۔ بلکہ اس کو جگانے کے لئے بادلوں کو سمندروں سے اٹھایا اور لا کر پیاسی زمینوں پر برسایا۔ کیا کیا اس کے رنگ ہیں۔ کونپلیں نکالیں۔ پھر انہیں توانائی بخشی گندم پر بالیاں پڑیں‘ایک ایک بالی میں سو سو دانے۔ بے حد و حساب نعمتیں گننے بیٹھو تو گنی نہ جائیں۔ سخت سے سخت زمین بھی قدرت کی پیدا کردہ نمو کو روک نہیں سکتی۔ روئیدگی کیسے سب کچھ ہرا کر دیتی ہے۔ کبھی سرسوں کی فصل کو دیکھو جیسے کسی نے ہر جگہ سونا بکھیر دیا ہو۔ دنیا کا کوئی بھی ماہر وہ چاہے جتنی مرضی سپیشلائزیشن تخصیص حاصل کر لے۔ جتنا مرضی وہ علم حاصل کر لے وہ پھولوں‘ پھلوں‘ پرندوں‘ چرندوںغرضیکہ کسی بھی مخلوق کی اقسام نہیں گن سکتا۔ گن سکنا تو ایک طرف اس کی آنکھ سے ایک بڑی دنیا اوجھل رہتی ہے۔ اس کی کائنات کی وسعتیں لامحدود ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ مجھے ایک درخت سے نیلے پھول گرتے نظر آئے تو ان پھولوں نے درخت کے نیچے قالین بچھا دیا تھا۔ میں نے اس پر نظم کہی تو اس درخت کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ تو میں نے لکھا: نام میں رکھا بھی کیا ہے کام دیکھا چاہیے حسن ہے تو حسن کو بے نام دیکھا چاہیے لوگ اللہ کو ماننے کی بات کرتے ہیں۔ اللہ خود اپنے آپ کو منوا لیتا ہے۔ اللہ کی ماننا اصل بات ہے۔ سب کچھ اس کی طرف سے آتا ہے۔ ذرا سا غور کریں تو آفات و مشکلات کے محرکات بھی سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ جب لوگ اللہ کو بھول جاتے ہیں‘ فطرت سے ٹکراتے ہیں اور مان مانیاں کرتے ہیں تو پھر کوئی ان کے پیروں میں پڑی نادیدہ زنجیر ہلا دیتا ہے۔ انہیں آفات و بلیات کا نہ کوئی ذریعہ نظر آتا ہے اور نہ وارد ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ وہ کون کون سی ویکسین تیار کریں گے۔ ویکسین بھی وہی سجھاتا ہے جیسے فلیمنگ کو پینسلین بخش دی کہ وہ انسانیت کے لئے پرخلوص تھا۔ اس نے کیسے عاجزانہ بات کی تھی کہ اس نے کچھ نہیں کیا یہ تو کب سے فطرت سے میں موجود تھی بس اسے اللہ نے سمجھا دیا۔ اس کی ناقص لیبارٹری اس دریافت کا باعث بنی۔ بات لمبی ہو جائے گی۔ سب کچھ ادھر ہی سے ہوتا ہے جدھر ہم دیکھتے ہیں۔ وہ جو اس کا ہو جاتا ہے اس کو موت بھی زندگی کی طرح ہوتی ہے’اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا‘ میرے پیارے قارئین! اس وقت جبکہ کرونا سے پوری دنیا سہمی پڑی ہے۔ مگر فطرت اپنے پورے رنگوں میں جلوہ گر ہے۔ اس کی قدرت سب سے بے نیاز ہے۔ اس کی جلوہ آرائیاں پے بہ پے نظر آتی ہیں۔ انسان نہیں سوچتا کہ اس نے کہاں کہاں ظلم روا رکھا ہے۔ آپ امریکہ ہی کو دیکھیں کہ اس نے کس کس کو برباد نہیں کیا۔ لاکھوں بچے بھسم کر دیے عراق، افغانستان اور شام کہاں اس نے ظلم کی اخیر نہیں کی۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی کہانیاں تو پرانی ہو چکی۔ اسرائیل اور بھارت نے کس طرح انسانیت کی تذلیل شروع کر رکھی ہے۔ لوگوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ہم مسلمان جب اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو سارا قصور ہمارا نکلتا ہے کہ ہم اغیار کو آقا تسلیم کر چکے ہیں اور ہم نے جہاد کو یکسر بھلا دیا ہے بلکہ جہاد کے نام سے ہماری اپنی جان جاتی ہے۔یہ باتیں تلخ ہیں مگر ایک حقیقت ہے‘ ایسے لگتا ہے کہ قدرت سب سے ناراض ہے۔ بہرحال ہماری بقا انہی سنہری اصولوں میں ہے جو ہمیں خدا تنزیل کی صورت بخشے ہیں اور ہمیں سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ آخری بات یہ کہ اسے استغفار اور توبہ پسند ہے۔ سارے موسم بہار ‘ گرما‘ خزاں اور سرما اسی کے ہیں اور پھر ایک موسم برسات کا بھی ہے میرا خیال ہے کہ یہ ایک روحانی موسم ہے جس میں انسان گریہ زاری کرتا ہے۔ وہ جو کسی نے کہا تھا ’’دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے‘‘ایک شعر کے ساتھ اجازت: سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیے ایک طرف میں نے سہارے سارے