پاکستان میں دانشوری کا چورن جس دن سے میرے جیسے کالم نگاروں کی دکان کی زینت بنا ہے، اس دن سے ہر کسی نے پیرانِ تسمہ پاء کی طرح اپنا اپنا ’’حلقۂ ارادت‘‘ بنا رکھا ہے۔ جو لبرل سیکولر ہے اسے اسلام کی حقانیت پر کچھ بھی مل جائے اپنے چاہنے والے کے ڈر سے نہیں لکھتا، اسی طرح اگرشدت پسند اسلام کے دعویدار کو کسی ظلم کے پیچھے مذہبی لوگوں کا ہاتھ نظر آئے تو وہ اسے گول کر جاتا ہے تاکہ اس کے پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی نہ آجائے۔ نظریاتی کالم نگاروں کی تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اپنے نظریے سے تعصب اور اسی کی اثرپذیری کے لئیے وہ ایسا کرتے ہیں۔ لیکن بیشمار کالم نگار ایسے ہیں، جو تحریر میں تنوع پیدا کرنے کے لئیے تقریباً ہر موضوع پر لکھنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہر انسان خطا کا پتلا ہوتا ہے ویسے ہی ہر لکھنے والے میں کسی ایک پہلو پر لکھنے کی ضد ہوتی ہے۔ اب چونکہ کالم نگاری بھی ایک مستقل ادبی فن بنتا جا رہا ہے، اس لئیے کالم نگاروں میں بھی کسی ایک خاص معاملے پر لکھنے کا جنون پیدا ہو چکا ہے۔ ہماری ادبی تاریخ میں تو ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ شراب پر سب سے جاندار شاعری ریاض خیرآبادی نے کی، لیکن زندگی بھر شراب کا قطرہ زبان کو نہ لگایا۔ وہ اگر ویسی شاعری چھوڑ دیتے تو مشاعروں میں داد کیسے وصول پاتے۔ نیا اسلوب اور انوکھا نظر آنے کی خواہش میںخود کو تباہ کرنے کی اہم مثال استاد امام دین گجراتی کی ہے۔ استاد بہت ہی خوبصورت پنجابی شاعری کیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گجرات کے آسمان پر پنجابی ادب کے بڑے بڑے آفتاب جگمگا رہے تھے۔ سیف الملوک کے خالق میاں محمد بخش اور پیر فضل گجراتی زندہ تھے۔ استاد ان کی روش پر چلتے تو آج انکا کہیں شمار تک نہ ہوتا۔ استاد کو ان کے دوست عبدالرحمن خادم نے ادب میں ایک نئی اختراع کا مشورہ دیا کہ تمہیں جیسی تیسی اردو آتی ہے اسی میں شاعری کرو۔ پھر کیا تھا استاد امام دین آج اپنی منفرد شاعری کی وجہ سے گذشتہ ایک سو سال سے زبانِ زدِ عام ہے۔ دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، افسانہ نگاروں اور ناول و سفر نامہ نگاروں کو انوکھا کہلانے کا ایسا خبط ہوتا ہے کہ ان میں اکثر جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنے مخصوص نظریات اور طرزِ کلام و تحریر کو نہیں چھوڑتے۔ یار لوگ بلکہ ادبی نقاد بھی انہیں ’’صاحبِ طرز‘‘ ادیب پکار پکار کر ان کی انا کو موٹا کرتے رہے ہیں۔ جیسے عبدالحمید عدم کہ جب ان کی پہلی کتاب ’’خرابات‘‘ جو شراب پر لکھے ہوئے اشعار پر مبنی تھی، بہت مقبول ہوئی تو پھر آخری عمر تک وہ ویسی ہی شاعری بغیر کسی تبدیلی و تنوع کے، بس دہراتے ہی رہے۔ کالم نگار اور وہ بھی دانشور کالم نگار کہاں اپنے ادبی قبیلے سے مختلف رہ سکتے ہیں۔ انہیں نے بھی ’’صاحبِ طرز‘‘ کہلانے کا جنون ایسا ہے کہ ہر کسی نے اپنا ایک الگ ’’قبلہ نما‘‘ ضرور بنا رکھا ہے۔ کسی کومغرب کی عریانیت میں شرم و حیاء دکھائی دیتی ہے تو کسی کا بس نہیں چلتا کہ وہ کائنات کو سائنس دانوں کی تخلیق قرار دے دے۔ کچھ ایسے ہیں جنہیں پاکستان کے گلی کوچوں سے بو آتی ہے اور وہ پاکستانی قوم کو بددیانت، بے ایمان اور اخلاق باختہ ثابت کرتے رہتے ہیں، جب کہ ان کے برعکس وہ ہیں جنہیں پاکستان امتِ مسلمہ کا آخری سرمایہ محسوس ہوتا ہے۔ کسی کو عمران خان اتنا برا لگتا ہے کہ وہ اس کی کسی اچھی بات سے بھی نفرت کرتا ہے، تو کوئی نواز شریف کو موجودہ کرپشن کا موجد قرار دیتا ہے۔ کسی کو جمہوریت کا ایسا خمار ہے کہ وہ تمام برائیاں فوج کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے تو کوئی جمہوری رہنمائوں کو پاکستان کے زوال کی وجہ بتاتا ہے۔ یہ سب برصغیر کے مخصوص ادبی مزاج کے آئینہ دار ہیں۔ یہ مزاج اپنی پوری آب و تاب سے ہندوستان کے بغدادی یہودیوںکے پیش کئے گئے ڈرامے ’’اندرسبھا‘‘ میں نظر آتا ہے جس میں اچھا اور برا دونوں علیحدہ شخصیتیں ہیں۔ اچھا کبھی برا نہیں ہو سکتا اور برا کبھی اچھا نہیں ہو سکتا۔ امانت لکھنوی کا لکھا یہ ڈرامہ آج بھی برٹش میڈیم میں عبرانی رسم الخط میں دیکھا جا سکتا ہے۔ صاحب طرز اور انوکھا نظر آنے والے ہمارے ایک بہترین اور مہربان دوست کالم نگار، ہرتھو ڈے دن بعد شراب کی مدح میں کالم ضرور تحریر کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے ’’حلقۂ ارادت‘‘ میں زندہ رہیں۔ عثمان بزدار پر ہوٹل کو شراب کا غیر قانونی پرمٹ دینے پر نیب نے بلایا تو ان کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے لکھا ’’الزام سچا ہے تو ذوق کی کمی کی بھی نشاندہی کرتا ہے‘‘۔ کمال کی بات یہ ہے کہ آج جب پوری مہذب دنیا چیخ چیخ کر شراب کے نقصانات پر گفتگو کر رہی ہے، میڈیکل سائنس اسے انسانی صحت کے بدترین دشمنوں میں شمار کر چکی ہے بلکہ اب تو اس کی تھوڑی سی مقدار کو بھی انسان کے لئیے زہر سے تعبیر کیا جاتا ہے، تو ایسے میں عقل مند شخص کے لئیے ممکن ہی نہیں کہ وہ ’’مغرب زدگی‘‘ سے مرعوب ہوکر شراب کی وکالت کرے۔ میرے سامنے اس وقت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 478صفحات پر مشتمل رپورٹ پڑی ہے جس کا عنوان ہے، ’’شراب کے صحت پر اثرات پر عالمی رپورٹ‘‘ (Global Status Report On Alcohol And Health)۔ اس میں دنیا کے ہر ملک میں شراب سے ہونے والے انسانی صحت پر بدترین اثرات کے متعلق معلومات اور اعدادوشمار جمع کئے گئے ہیں۔ ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں چیچک، ہیضہ، خناق، ٹی بی، ایڈز اور پولیو نے اتنے انسانوں کی جانیں نہیں لی ہوں گی، جتنی جانیں شراب نوشی نے لی ہیں۔ امریکہ کے ’’بیورو آف جسٹس‘‘ (Bureau Of Justice) کی گذشتہ دس سال کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ 64فیصد قتل شراب نوشی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ امریکہ ہی میں 30فیصد جنسی استحصال (Rape)، 24فیصد ڈکیتی، 27فیصد بدترین تشدد اور 23فیصد بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی وجہ بھی شراب نوشی ہوتی ہے۔ شراب کے بارے میں دانشور ایک یہ غلط تصور عام کرتے ہیں کہ شراب بند کردو تو لوگ منشیات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ امریکی ادارے ’’قومی ادارہ برائے اصلاح‘‘ (National Institute Of Corrections)ہر سال ایک ’’ADM‘‘ رپورٹ شائع کرتا ہے۔ اس کے مطابق جتنے بھی ہیروئن، چرس، کوکین یا دیگر نشوں کے عادی پائے گئے، ان میں سے نوے فیصد سے بھی زیادہ ایسے تھے جنہوں نے سب سے پہلے شراب اور سگریٹ کا ہی نشہ کرنا شروع کیا۔ شراب نوشی کے صحت پر اثرات کی تو داستان ہی طویل اور دلگداز ہے۔ اس سے سب سے پہلے جگر برباد ہوتا ہے، یہ دل کے پٹھوں پر اثر انداز ہوتی ہے، جس سے دماغ میں خون کے منجمد ٹکڑے (Blood Clots) پیدا ہوتے ہیں، لبلبہ میں زہر پھیلتا ہے، سر، گردن، گلے، جگر اوربریسٹ وغیرہ کے کینسر اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔ امریکہ اور مغرب میں شراب موت کی پہلی چار وجوہات میں شامل ہے۔ شراب کے بارے میں ایک اور غلط فہمی یہ بھی پھیلائی جاتی ہے کہ تھوڑی سی پینے سے کیا ہوتا ہے اور خصوصاً پریشانی دور کرنے یا مجلسی زندگی کے لئیے تو یہ بہت ضروری ہے۔ اس موضوع پر میڈیکل سائنس کا ایک پورا موضوع ’’شراب کا چندھیاپن‘‘ (Alcohol Myopia)ہے۔ اس نصابی موضوع کے مطابق شراب کا تھوڑا سا استعمال، آغاز ہی سے انسان کے دماغی نظام کو ایسا بدل کر رکھ دیتا ہے کہ پھر وہ ایک ایسی پٹڑی پر چڑھ دوڑتا ہے جس میں کثرتِ شراب نوشی، منشیات کا استعمال اور پھر بیماری اور موت ہے۔ شراب کی وکالت کرنے والے اسے شاعری کے ساتھ بھی نتھی کرتے ہیں۔ ظفر الحسن مرزا نے فیض احمد فیض کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ میں نے فیض صاحب سے پوچھا شراب کا شاعری سے کوئی تعلق ہے، کہنے لگے، ’’بالکل نہیں، ایسی حالت میں بھلا شعر کہے جاسکتے ہیں‘‘۔ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے شراب کو ’’ام الخبائث‘‘ یعنی برائیوں کی ماں کہا تھا اور آج جدید دنیا اسے صرف برائیوں کی ماں تو کہتی ہے، بیماریوں کا باپ بھی ثابت کرتی ہے۔ مگر کیا کریں، صاحب طرز اور انوکھا کہلانے کا خبط ایسا ہے کہ آدمی کو جان بوجھ کر بھی اپنے پرانے موقف سے پلٹنے نہیں دیتا۔ عربی میں جہل کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کسی چیز کے بارے میں ناواقف ہو اور اسے اس ناواقفیت کا احساس نہ ہو۔ یعنی آدمی کو احساس ہی نہ ہو کہ وہ لاعلم ہے۔ یہی جہل مرکب ہے کہ عمر اسی میں بسر ہو جاتی ہے اور آخری عمر جگر مراد آبادی جیسا شاعر پکار اٹھتا ہے: سب کو مارا جگر کے شعروں نے اور جگر کو شراب نے مارا اس شعر میں جگر کو تخلص کی بجائے اگر رئیس الاعضاء جگر بھی پڑھا جائے تو بات غلط نہیں۔