پاکستانی مارکہ جمہوریت اور طرز سیاست پر کڑھتے رہنا قلم کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ یہ لکھ دیا گیا ہے کہ ہم بے آوازوں کی آواز بنتے رہیں۔ انسان کے حق میں لکھتے رہیں۔ انسانیت کے لئے آواز اٹھاتے رہیں۔ کم وسیلہ ہم وطنوں کی بنیادی ضرورتوں‘ حقوق اورمجبوریوں کو الفاظ کا پیراہن دیتے رہیں اور یہی ایک کالم نگار کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ جہاں تک ہو سکے سچائی کی آواز بنے۔ جہاں تک ہو سکے خلق خدا کے درد کو اہل اختیار و اہل اقتدار تک پہنچائے۔ سید قاسم محمود ایک نابغہ روزگار تھا۔ بڑے بڑے اداروں کا کام اس ایک اکیلے شخص نے کیا۔ اسی سید قاسم محمود نے کہا تھا کہ ایک قلم کار کے اندر ماں کا دل ہوتا ہے۔ وہ ساری دنیا میں سکھ بانٹنا چاہتا ہے۔ یہ بات مجھے کالم نگاروں پر صادق نظر آتی ہے۔ کیونکہ اخبار میں لکھنے والا تصورات کی حسین دنیا سے باہر نکل کر زندگی کے تلخ حقائق‘ روز مرہ کے گھمبیر مسائل پر قلم اٹھاتا ہے۔ اور بنیادی مطمع نظر اس کی ہر تحریر کا یہی ہوتا ہے کہ سکھ اور آسودگی سماج کے کمزوروںکا نصیب بھی بنے۔ یہ جو اربوں کھربوںمیں کھیلتا ہوا اشرافیہ کا طبقہ ہے‘ اس کی اس عیاشی اور آسائش کا چند فیصد ہی عوام کے اکثریتی طبقے تک ان کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کی صورت میں پہنچ جائے۔ سو یہی مطمع نظر اس کالم نگار کا ہے۔ اکثریت کی آواز بنے۔ سو اس وقت تک سچ کو سچ کہتے رہیں جب تک غریب کی چنگیر میں تین وقت کی پیٹ بھر روٹی میسر نہ آ جائے۔ ہمیں اہل اقتدار و اہل اختیار کے قصیدے اس وقت گوارا ہوں گے جب ملک کے بہتر ہوتے معاشی اشاریوں کی خبر ہمیں غریب شہر سے ملے گی۔ اور عوام کی زندگی کی سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان ختم ہو گا۔ اس سے کم پر تو ہم سے مدح سرائی نہ ہو گی۔ نہ ہی کوئی سیاسی بت تراشا جائے گا جس کے لئے ہم جوہڑ کو سمندر اور صر صر کو صبا کہتے پھریں۔! بارگاہ شاہ سے ہمیں نہ آج کچھ لینا ہے نہ کل ہمارے مفادات اس سے وابستہ تھے۔ حکمران کوئی بھی ہو‘ زید‘بکر‘ عمر سیاسی جماعت کوئی بھی ہو۔ ایکس‘ وائے زیڈ۔ یہ قلم اور قلم کار کا دل احساس کی تمام تر شدت کے ساتھ ہمیشہ عام آدمی کے لئے دھڑکا۔ آنکھوں میں ان کے درد کی نمی محسوس کی۔ رائیگانی کے تمام تر احساس کے ساتھ کہ میرے لکھے ہوئے یہ چندا لفاظ نہ کسی کے دل کو موم کریں گے نہ کسی جاہ و حشم اور اقتدار کے شہر کے سنگ دل مکینوں پر اثر انداز ہوں گے۔ پس یہ لاحاصل سی سرگرمی ہے۔ مگر میرے لئے وہ درد جو میں کتے کے کاٹے سے ترڑپتے ہوتے کسی میر حسن کے لئے اور ظلم کا شکار کسی زینب کے لئے محسوس کروں وہی میرا حاصل ہے۔پشاور کے طارق شاہ کے چار معصوم بچوں کی ایک ہی دن حادثاتی موت پر جب کالم لکھا تو اس بدقسمت والدین کا دکھ میری روح میں اتر گیا۔ بس آنسو اور درد لفظوں میں اتارنے کی کوشش کرسکی۔ مگر خود احساس کی اس آنچ سے سچ مچ کی بیمار پڑ گئی۔ مجھے لگتا ہے میرے اور میرے لوگوں کے درمیان درد کا ایک رشتہ ہے اور احساس کی یہی شدت الفاظ میں ڈھلتی ہے۔ ابھی میاں نواز شریف کی بیماری پر تواتر سے آنے والی خبریں پلیٹ لیٹس کی کہانیاں اور اس سے جڑی بہت سی رپورٹس ٹی وی کے سپیشل پیکیج دیکھ کر بھی دل ہی نہیں چاہا کہ اس پر قلم اٹھائوں۔ بیماری پر میں کسی قسم کا طنزوتضحیک کرنا نہیں چاہتی تھی۔دعا ضرور تھی کہ سابق وزیر اعظم صحت یاب ہو جائیں۔ ظاہر ہے جس طرح کی خبریں آ رہی تھیں کہ ڈاکٹروں کے بورڈ تشکیل دیے گئے۔ خصوصی انتظامات‘ قطار اندر قطار خدام اور مسیحا تو دھیان بار بار سرکاری ہسپتالوں میں رلتے ذلیل و خوار ہوتے اہل وطن اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں سپیشلسٹوں کے ہاتھوں لٹتے ہوئے عام پاکستانی مریضوں کی طرف جاتا تھا،چلئے ۔ وہ تو لندن اور امریکہ کے محفوظ شفاخانوں میں علاج کے لئے بالآخر پہنچ ہی گئے۔ اب زرداری صاحب کا بی پی اور شوگر بھی کنٹرول سے باہر ہونے کی خبریں ٹی وی آ رہی ہیں۔ امید ہے کہ جلد ان کو پاکستان کے غیر معیاری ہسپتالوں سے نجات مل جائے گی اور وہ بھی طبی این آر او پر دنیا کی بہترین ہسپتال میں اپنا علاج کروائیں گے۔ یہ اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھنے والی مخلوق ہے۔ پھر حکمرانی کے سرخاب کے پر بھی انہیں لگے ہیں۔ اصل مسئلہ ان غریبوں کا ہے جنہیں بیماری میں موت بھی آسان دکھائی دیتی ہے کہ دوا دارو اوردرد بانٹنے کے نام پر کچھ انہیں میسر نہیں ہوتا۔ حکمرانی کرنے والی اقلیت جو ستر سال سے پاکستان کی اکثریت پر مسلط ہے۔ کسی اور ہی دنیا کی باسی ہے یہ اکثریتی عوام کی دنیا تو یہ ہے جو دکھائی دیتی ہے جہاں مہنگائی ہے۔ بے روزگاری ہے بیماری ہے‘ ناانصافی ہے کرپشن اور بددیانتی ہے۔ جہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ملنے سے مریض درد سے تڑپتا ہوا جان دیتا ہے لیکن‘ اس پر حکمرانی کرتے ہوئے شاہ کی شوگر کا لیول کم ہو جائے یا پلیٹ لیٹس میں کمی واقع ہو جائے تو پھر سارا نظام اس کی سہولت اور آسودگی کے لئے سر بسجود ہو جاتا ہے،حکمران کوئی بھی ہو زید بکر یا عمر‘ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو‘ ایکس وائے زیڈ سب کے سب اس عام پاکستانی کی زندگی سے کوسوں دور ہیں جو رلتے‘ گھلتے‘ کڑھتے‘ کھپتے‘ رینگتے‘ مرتے اپنا جیون کرتا ہے ۔ شاہ اور بارگاہ شاہ‘ تک غریب شہر کی رسائی کہاں ہوتی ہے۔ میں بھی اپنے قلم اور احساس کی سچائی کے ساتھ اسی غریب شہر کے ساتھ کھڑی ہوں یہی میرا اعزاز ہے۔ نجیب احمد صاحب جئیں آپ ۔ کیا عمدہ کہا ہے آپ نے: ہوسِ بارگاہ شاہ کہاں اور کاغذ کی خانقاہ کہاں