یہ وہ دور ہے ‘ یہ وہ واقعہ ہے جس کا تجزیہ ضرور ہونا چاہیے۔ ایسا کیا ہوا تھا کہ ہم اپنی ساری جمہوریت پسندی بھول بیٹھے تھے۔ آج ہی برادرم سلیم منصور خالد نے ایک خبرنامہ ارسال کیا ہے جو اس زمانے میں ریڈیو پاکستان پر نشر ہوا تھا۔ ریڈیو پاکستان کے بعض بلیٹن تاریخی ہیں۔ ان میں ایک وہ بلیٹن تھا جو سقوط ڈھاکہ کا اعلان تھا۔دوسرا یہ بلیٹن تو بہت دلچسپ ہے۔ سارے بلیٹن میں ایک ہی خبر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے تفصیل سے بتایا ہے کہ ان کے اور حزب اختلاف کے درمیان معاہدہ ہو گیاہے‘ وغیرہ وغیرہ آخر میں صرف ایک سطری خبر ہے کہ ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ افواج پاکستان نے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے اور وزیر اعظم اور اپوزیشن کے قائدین کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ یہ اتنی اچانک خبر تھی کہ پر زور تحریک کے باوجود شاید کوئی بھی اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں صبح کراچی کے ہل پارک سے ڈھلان پر سے نیچے آ رہا تھا کہ ساتھ والی پگڈنڈی پر اوپر جاتے ہوئے ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ ہو گئی چھٹی‘ریڈیو پر آ گیا ہے ۔ میں اسی شش و پنج میں گھر پہنچا اور ساتھیوں نے اس خبر کی تصدیق کی۔ یہ وہ دن تھے جب ٹیلیویژن صبح سویرے ابھی سویا ہوتا تھا۔ شام کو پریس کلب میں ضیاء الحق کا خطاب سنا اور اختتام پر میں نے ہنستے ہوئے نعرہ لگایا!مرد مومن‘ مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق ۔یہ نعرہ کوئی ضیاء الحق کی محبت میں نہیں لگایا گیا تھا‘ بلکہ ان دنوں شاہ فرید الحق کراچی سے جے یو پی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ رہے تھے اور یہ ان کی انتخابی مہم کا نعرہ تھا۔ ایسا ہوتا رہا ہے۔70ء کی جنگ کے دنوں میں لاہور میں ایک سیمینار ہوا‘ ٹکا خاں کا عوام میں بڑا طوطی بولتا تھا۔ کسی نے نعرہ لگا دیا مری جان‘ تری جان‘ ٹکا خاں‘ ٹکا خاں۔ یہ نعرہ تو لوگ بھول گئے‘ مگر وہیں سے جب پنجاب یونیورسٹی کے انتخاب ہوئے تو مری جان تری جان حفیظ خاں‘حفیظ خاں کے نعرے لگنے لگے۔ اس لئے میں یہ نہیں سمجھتا کہ ضیاء الحق کے حق میں نعرے سوچے سمجھے تھے‘ مگر یہ سوال ضرور پوچھتا ہوں کہ وہ کیا حالات تھے کہ جب سقوط ڈھاکہ اور جنرل نیازی کے سرنڈر کے بعد ملک میں فوج ایک دبائو کا شکار تھی اور اس کاامیج ایسا کوئی غیر معمولی نہ تھا‘ پھر کیا ہوا کہ جب مارشل لاء لگا تو بلا مبالغہ نصف سے زیادہ پاکستانیوں نے اس کا استقبال کیا۔ چلئے نصف نہ کہیے‘ یوں کہہ لیجیے کہ بڑی تعداد اس تبدیلی کے ساتھ تھی۔ کبھی ہم نے اس کا تجزیہ کیا۔ ہم نے بھٹو صاحب کے دور کو پرکھ کر دیکھا۔ اس میں ایسا کیا ہوا تھا کہ لوگ اس سطح تک آ گئے کہ انہوں نے فوجی آمریت کو ان حالات کے تناظر میں بھی قبول کر لیا۔ میں اب ان حالات کا تجزیہ کر کے یہ ثابت نہیں کرنا چاہتا کہ لوگ بھٹو سے بہت تنگ تھے نہیں‘ ایسا نہیں تھا‘ بلکہ مری بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح یہ رائے ہے کہ اگر دوبارہ انتخابات بھی ہو جاتے تو بھٹو جیت جاتے۔ اب بہت سے لوگ بھٹو کی محبت میں ضیاء الحق کو برا بھلا کہتے ہیں۔میں نے یہ نہیں کہا کہ جمہوریت کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں۔ اس لئے کہ پھر تو مجھے یہ بھی جائزہ لینا پڑے گا کہ آیا یہ لوگ مشرف کے بھی مخالف ہوئے تھے یا نہیں۔مشرف کے زمانے کے جمہوریت پسند اور تھے اور ضیاء الحق کے زمانے کے اور۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تاریخ کے بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں جس میں جمہوریت یا غیر جمہوریت اہم نہیں ہوتی‘ بلکہ انداز حکمرانی یا گورننس اہم بن جاتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ پاکستان میں کبھی ایسا وقت آئے کہ ہمارے لوگوں کی جمہوریت کے لئے تڑپ دم توڑ جائے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں جمہوری ادارے جیسے بھی کمزور کیوں نہ ہوں‘ عوام کی جمہوریت کے لئے محبت بھی کم نہیں ہوتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک وقت آتا ہے کہ چاہے اضطراری طور پر ہی سہی وہ جمہوریت اور غیر جمہوریت کی پروا نہیں کرتے۔میں نے جمہوریت کے مقابلے میں غیر جمہوریت کہا ہے‘ آمریت نہیں کہا ہے۔ ایسا ہمیشہ ہوا ہے کہ جب غیر جمہوری حکومت اپنے آمرانہ رنگ دکھانا شروع کر دیتی ہے تو لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ہر آمر کی بھی ہمارے ہاں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی آمرانہ حکومت کا ایک طرح جواز ڈھونڈتا ہے۔ دوسری طرف اپنے انداز کو جمہوری بنانا چاہتا ہے۔ اس طرح کیا یہ ممکن ہے کہ بظاہر جمہوری عمل سے منتخب ہونے والا اگر آمرانہ انداز اختیار کرے تو کیا اسے قبول کر لیا جائے گا۔ چاہے وہ انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آیا ہو۔ ایسی حکومت کو ہم فسطائی یا فاشسٹ کہتے ہیں اور عموماً مثال دیتے ہیں کہ ہٹلر ووٹ ہی سے منتخب ہو کر آیا تھا۔ آج اگر ٹرمپ یا مودی کو فسطائیت کا طعنہ دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ بعض اوقات قوموں حالات کے ریلے میں ایسے بہہ جاتی ہیں کہ ان پر فسطائی ہتھکنڈے اختیار کر نے والے مضبوطی سے مسلط ہو جاتے ہیں۔ مثال پھر ہٹلر ہی کو لے لیجیے اسی کے لئے بہت سے مطالعے‘ تجزیے موجود ہیں‘ مگر اس وقت میں خود کو صرف ایک نقطے تک مرکوز رکھنا چاہتا ہوں اور رکھے ہوئے ہوں۔ اب میں بڑی آسانی سے موجودہ حالات پر آ کر ان کا تجزیہ کر سکتا ہوں۔ مگر کسی کی شان میں گستاخی نہیں کرنا چاہتا۔ صرف یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ حکمرانی کا حق صرف ووٹ لینے سے اور مقتدر قوتوں کو اپنی پشت پر لے آنے سے نہیں ملتا اس کے لئے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ ایوب خاں کے بارے میں کہتے ہیں اس نے ملک کی ترقی کے لئے بہت کچھ کیا مگر چینی صرف ایک چونی فی سیر یا فی کلو مہنگی ہوئی اور طوفان کھڑا ہو گیا۔ لوگ سب کچھ بھول گئے اور جمہوریت جاگ اٹھی۔ آج تو بہت کچھ ہے‘ صرف چینی ہی نہیں‘ گندم ‘پٹرول اور جانے کیا کیا کچھ۔ آج بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی۔سچی بات ہے گورننس اور طرز حکمرانی کے بے شمار لطائف بھی۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب صرف افواہیں ہی نہیں ابھرتیں‘ بلکہ ذہنوں اور دلوں میں کئی خواہشیں کروٹیں لینے لگتی ہیں یہ بہت نازک وقت ہوتا ہے۔ اس سے حکمرانی کی گرفت اور کمزور ہو جاتی ہے اور اگر اسے مضبوط کرنے کے لئے سخت ہاتھ ڈالا جائے تو کلائیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ خدا نہ کرے ایسا وقت آئے ہمیں تاریخ سے سبق لینا چاہیے اور سیکھنا چاہیے۔ ہم بہت کم مدت میں بہت سے تجربات سے گزرے ہیں۔ مزید کی گنجائش نہیں ہے۔