ہم پاکستانی ہیں ، ہم مسلمان ہیں۔ یہ ہماری تقدیر ہے یا مرضی اس پر بات پھر کرلیں گے۔ مگر زندہ قومیں کونسی ہوتی ہیں۔ کسطرح Behave کرتی ہیں، اس پر بات کرلیتے ہیں۔فرض کریں میرے کسی دوست کی عمر 70یا75 سال ہے ۔ اُسکی سالگرہ آجاتی ہے، تو وہ کیا کرے گا؟ رقص یا ڈانس کرے گا؟ باجے بجائے گا؟سڑکوں پر نعرہ زنی کرے گا۔ رنگین کپڑے پہن لے گا۔ سکرین پراپنی پیدائش کو یاد کرے گا؟ غالباً۔۔۔ نہیں۔ وہ بیٹھ کر اپنی سابقہ زندگی کا گوشوارہ کاغذ پر نہیں تو ذہن میں ضرور بنائے گا۔ ہم نے کیا کھویا؟ ہم نے کیا پایا والی سوچ تو ہوگی اُسکی۔ جواب آئے گا، فرد اور قوم کی زندگی کی سالگرہ منانے میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔ چلیے مان لیا مگر حساب عمر کا گوشوارہ تو پھر بھی بنانا بنتا ہے ۔ مگر یہاں تو بقول منیرؔ۔۔۔ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ مگر بات اس سے آگے جاچکی ہے۔ حرکت کچھ زیادہ تیز ہوگئی ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اور سفر آہستہ نہیں ہے، رُک گیا ہے یا کچھ اور ہوگیا ہے۔ یہاں کچھ اور دانش ور آئیں گے کہ جی گلاس آدھا بھرا ہوا ہے۔ 14 اگست 1947ء کے وقت ہم کہاں تھے اور ترقی کرتے کرتے ہم کہاں آگئے ہیں۔ اور کہیں گے مایوسی کفر ہے، مایوسی گناہ ہے۔ کیا وطن سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سب رُک جائیں۔ اپنے اپنے انفرادی اعمال اور اجتماعی سوچ کا محاسبہ بھی کریں اور سوچیں کہ کیا ہم سب اس وطن کی مٹی کا حق ادا کر رہے ہیں؟ ہم سب عوام حکومتوں پر جی بھر کر تنقید کرتے ہیں۔ بعض اوقات اپنی سیاسی جماعت کی ایک بوٹی کے لیے سارا قومی بکرا ذبح کرنے کے موڈ میں آجاتے ہیں۔ ہم سب اپنی اپنی ذات اور اپنی اپنی برادری کے خانوں میں حال مست ہیں، مال مست ہیں۔ ہم سب کا اپنا اپنا تصورِ دین ہے۔ ہم سب کا اپنا اپنا مسلک ہے اور دوسرے کا مسلک یا نظریہ ؟ مت پوچھیں کہ دوسرا کافر بھی ہے اور غدار بھی ۔ ہم سب خود کو اچھا مسلمان ، گڈ پاکستانی کہتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ مگر ہم باکمال مسلمان ہیں اور شاہکار پاکستانی ہیں۔ ہم کم تولتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اپنے اپنے قد، اوقات اور بساط کے مطابق ۔ فرض کریں ہم سرکاری ملازم ہیں تو ہم کسی سائل کا کام بغیر ’’سپیڈ منی‘‘ کرنے کو گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں۔ ہم دفتر سے ایک بجے نماز پڑھنے جاتے ہیں اور ڈھائی بجے سے پہلے واپس نہیں آتے۔ سائل جائے جہنم میں۔ ہم فوڈ کا کام کرتے ہیں تو ملاوٹ کو عین عبادت تصور کرتے ہیں۔ میں سیاست میں ہوں ، میں الیکشن سے پہلے سڑکوں کا جال اور نوکریوں کی برسات کا وعدہ کر لیتا ہوں مگر الیکشن جیت کر میں کیا کرتا ہوں؟ صرف چیف منسٹر سے اپنے حلقے میں مرضی کا DPOاور DCO لگواتا ہوں اور SHO بھی ۔ وزیر اعظم سے حلقے کے کیلئے فنڈز مانگتا ہوں اور پھر میں ٹھیکیدار سے ڈیل کر لیتا ہوں ۔ الیکشن جیت کر سب سے پہلے سیاسی مخالفین اور اُن کے سپوٹروں کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرتا ہوں۔ میں پاکستانی بیوروکریٹ ہوں تو مجھے ڈیسک کی نوکری پر نیند نہیں آتی اور میں دعا اور دوا کے ذریعے فیلڈ میں DCOاور DPO لگنے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہوں۔ فیلڈ میں پوسٹنگ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ یہ معرفت کی بات ہے، آپ خود سمجھدار ہیں ۔ اگر ہم ایسے سرکاری ملازم ہیں جہاں کوئی نہیں آتا اپنا کام کروانے تو معاشرے میں ہماری عزت دو کوڑی کی نہیں ہوتی۔ پھر ہم کیا کرتے ہیں ؟ ہم دفتر لیٹ آتے ہیں، ساتھ سائیڈ بزنس شروع کر لیتے ہیں، اور پھر دفتر میں یونین بنا کر صاحب کو تنگ کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ ہم اُستاد ہیں اور سرکاری شعبے میں ہیں تو ہم کلاس میں جانے کی بجائے کلاس کے باہر اپنے کولیگز کے ساتھ اپنی اپنی پرموشن اور تنخواہ میں اضافے پر سیر حاصل گفتگو کے عادی ہوتے ہیں۔ اگر ہم پرائیویٹ سیکٹر میں اُستاد ہیں تو ہم سمیسٹر سسٹم سے جان چھڑوانے کیلئے نیٹ کی مختلف سائیڈز سے میٹریل ڈائون لوڈ کر کے کلاس کی سائیٹ پر لگا دیتے ہیں ۔ کیونکہ ریڈنگ کی سمجھ ہمیں خود نہیں آتی ہم طالب علموں کو کیا پڑھائیں ؟ اب سٹوڈنٹ جانے اور ریڈنگ جانے، ہمارا کام تو گریڈ لگانا ہے۔ جو خدمت کرے گا اُس کا گریڈ A ورنہ B,C,Dاور F بھی ہو سکتا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں ۔ بیورو کریسی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں کتنا کردار ادا کر چکی ہے اور کتنا کردار ادا کر رہی ہے ؟ یہ ایک ریسرچ پیپر کا موضوع ہے ۔ مگر ان بیوروکریٹ سے پوچھا تو جانا چاہیے کہ تم پاکستان کے ساتھ ہو ، حکومت کے ساتھ یا اپنے ساتھ ؟ 1971ء میں ہمارا ایک حصہ ہم سے جدا ہوگیا ؟ آج وہ ہم سے کئی جہتوں میں ہم سے بہتر ہے۔ کیا کبھی کسی نے سنجیدگی سے یہ جاننے اور بتانے کی کوشش کی کہ 1947ء میں بنگالیوں کا جو فیصلہ درست تھا وہ 1971ء میں غلط کیوں ہوگیا؟ اس کار خیر میں کس کس نے کتنا کتنا حصہ ڈالا ، اس پر بات کرنے کا رواج ہی نہیں ۔ 1947ء میں جو سفر ہم سب نے مل کر شروع کیا تھا آج تک اُسے کس نے کتنا کھوٹا کیا، کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ عوام کی تو مت پوچھیں۔ حال مست ، مال مست ٹائپ عوام ہیں ۔ انہیں ہوٹلنگ ، شاپنگ مالز اور سوشل میڈیا کے بخار سے فرصت ہی کب ہے۔ بھلے وقتوں میں طالب علم ، مزدور ، وکیل اور پروفیسر کا بھی ایک نظریہ ہوتا تھا۔ اب نظریہ نام کی کوئی شے ہمارے ہاں نظر نہیں آتی۔ ایک اندھی دوڑ ہے، مادی آسائشات کی ۔ آج کے میڈیا سوشل میڈیا کا دانشور فروعات میں الجھا رہتا ہے اور دوسروں کو بھی اُلجھائے رکھتا ہے ۔ اصل موضوعات ، اور مسائل کہیں کھو سے گے ہیں۔ قوم کا کیا حال ہے؟ جیسی روح ویسے فرشتے۔ اگر قائد اعظم آج پلٹ کر آجائیں اور وہ ہمارے اعمال دیکھیں اور پھر 14 اگست ۔۔۔ تو، باقی آپ سمجھدار ہیں۔