پاکستان نے اورماڑہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کے متعلق ایران کو ضروری تفصیلات فراہم کر کے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے مراسلے کے مطابق 18اپریل کو ایرانی سرحد عبور کر کے 15سے 20دہشت گرد بلوچستان کے علاقے میں داخل ہوئے۔ یہ لوگ ایران کے سرحدی علاقوں میں موجود تربیتی کیمپوں سے آئے تھے۔ پاکستان نے اس مراسلے میں ایران کو باور کرایا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی قبل از وقت معلومات فراہم کرنے کے باوجود ایرانی حکام نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان کی طرف سے فراہم کی گئی تازہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر چودہ پاکستانیوں کو بسوں سے اتار کر شہید کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرے گا۔ دوسری طرف ایرانی وزیر خارجہ نے اورماڑہ دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کے سدباب میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ پاکستان اور ایران صرف ہمسایہ نہیں بلکہ مذہبی اور ثقافتی رشتوں سے بھی خطے کے دیگر تمام ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان قائم ہوا تو ایران نے پہلے آگے بڑھ کر پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ابتدائی تعلقات زبان‘ ادب ‘ تاریخ اور مشترکہ ثقافتی ورثے کی بنیاد پر آگے بڑھے۔ جلد ہی وہ وقت آ پہنچا جب آرسی ڈی کی شکل میں پاکستان‘ ایران اور ترکی ایک مضبوط رشتے میں منسلک ہو گئے۔1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس میں ایران کا تعاون ناقابل فراموش ہے۔ آیت اللہ خمینی کی قیادت میں کامیاب انقلاب نے ایرانی قوم کو خود انحصاری کا راستہ دکھایا۔ اس دوران پاکستان اور ایران اپنے باہمی تعلقات کو معمول پر رکھنے میں کامیاب رہے۔ افغانستان سے سوویت انخلا نے خطے کو کئی تبدیلیوں سے آشنا کیا۔ ایک نئی صورت حال ان جہادیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی جو سوویت یونین کے بعد فرقہ وارانہ جھگڑوں کا حصہ بن گئے۔ پاکستان کا صوبہ بلوچستان ایران سے ملحق ہے۔ یہاں چند قوم پرست گروپ ریاستی مفادات پرحملوں میں ملوث رہے ہیں۔ اس دوران بلوچستان میں فرقہ وارانہ بنیاد پر قتل کی وارداتیں شروع ہو گئیں۔ نئی بین الاقوامی حقیقتوں نے پاکستان کو دنیا میں ایک ذمہ دار ریاست کا کردار عطا کیا۔ ایٹمی اثاثوں اور ایک بڑی آبادی کے باعث پاکستان نے بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقوں سے طے کرنے کی حمائت کی۔ یہ جنرل پرویز مشرف کا عہد تھا جب ایرانی حکام نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو بتایا کہ اس کے ایٹمی پروگرام کے لئے استعمال کچھ سینٹری فیوجز پاکستان کی فراہم کردہ ہیں۔ اس انکشاف سے پاکستان کے لئے کئی مشکلات پیدا ہو گئیں۔ شائد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بے اعتباری کا یہ سب سے اہم واقعہ تھا۔یہ واقعات خطے میں امریکی مداخلت کے ضمن میں دونوں ملکوں کے مشترکہ تحفظات کا باعث بھی بنے جس پر دوطرفہ تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جدید دنیا کے تعلقات کا انحصار اقتصادی رشتوں پر ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی لڑائی لڑنے کے بعد تعمیر نو کا عمل شروع کیا تو صنعتی ضروریات کے لئے سستی اورجلد توانائی ایران سے پوری ہو سکتی تھی۔ دونوں ملکوں کے مابین معاہدہ ہوا۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اس منصوبے کا مشترکہ طور پر افتتاح کیا۔ ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں نے اس منصوبے کو اب تک تاخیر کا شکار کر رکھا ہے۔ دو طرفہ تعلقات میں خرابی کا عنصر بھارت کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے پہلے ایران کو چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں مدد فراہم کی اور پھر اس مدد کے بدلے ایرانی سرزمین پر اپنے لئے کئی رعائتیں حاصل کر لیں۔ بھارت نے افغانستان کی سرزمین پر پہلے ہی اپنے حامی تلاش کر رکھے تھے۔ ایران تک رسائی کے بعد اس نے پاکستان کے دونوں مغربی ہمسایوں کو پاکستان مخالف مفادات پر متفق کرنا شروع کر دیا۔ بھارت نے اچھے سفارتی تعلقات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ان دونوں ملکوں میں اپنے ایجنٹ داخل کر دیے جو وہاں سے پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرات کا باعث بن رہے ہیں۔ چند برس قبل صدر حسن روحانی پاکستان تشریف لائے تو اس موقع پر بلوچستان سے کلبھوشن جادیو کی گرفتاری ہوئی۔ کلبھوشن کا نیٹ ورک ایرانی علاقہ سے پاکستان کے خلاف سرگرم تھا اورماڑہ واقعہ اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ یہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران سے چند دن قبل برپا ہوا۔ حالیہ برس فروری میں ایران کے علاقے سیستان میں ایک خودکش حملے میں پاسداران انقلاب کے 27جوان مارے گئے۔ ایرانی حکام نے الزام عائد کیا کہ اس حملے میں پاکستان سے آنے والے افراد ملوث ہیں۔ اس واقعہ کے ایک دن بعد پلوامہ میں خودکش حملے میں بھارت کے 42سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ ان واقعات پر دونوں ممالک کے الزامات ایک جیسے تھے جس سے پاکستان نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بھارت اس کے ہمسایہ ممالک کی سرزمین استعمال کر رہا ہے۔ بھارت نے ایران میں دہشت گردانہ حملے کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جس سے پاک ایران تعلقات متاثر ہوئے۔ پاکستان نے دفاعی اور سفارتی محاذ پر ایک طرف بھارت کو شکست دی اور دوسری طرف برادر مسلم ہمسائے ایران کو مناسب انداز میں یقین دلایا کہ وہ اس کی سلامتی کا احترام کرتاہے۔ پاکستان نے بعدازاں ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کو بازیاب کروا کر اپنے خلوص نیت کا مظاہرہ کیا۔ وزیر اعظم کے دورہ سے قبل دونوں ملکوں کے مابین اورماڑہ سانحہ پر بات چیت مستقبل میں ایسے واقعات کے انسداد کا میکنزم تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ایرانی حکام کو پاکستان کے خلوص کا احترام کرتے ہوئے اپنے ہاں ایسے ٹھکانوں کو ختم کرنا چاہیے جو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔