پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 33قوانین پاس کراکرحکومت نے ثابت کیا کہ تمام تر چیلنجز اور مشکلات کے باوصف اس کی گرفت مضبوط ہے۔حکومت کے نقاد بھی اب یہ کہنے پہ مجبور ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ گزشتہ دوتین ماہ بہت اعصاب شکن رہے۔ طرح طرح کی خبروں اور تجزیوں نے ملک کے طول وعرض میں ہیجان پیدا کیے رکھا۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر خواہشات کو خبر اور تجزیہ کا رنگ دے کر پیش کرنے والوں کی ایک شتربے مہار فوج ظفر موج متحرک ہے جسے کنٹرول یا کاونٹر کرنا بس سے باہر ہوچکا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دینے کے معاملے پر کی جانے والی قانون سازی پر خوب دھول اڑائی جارہی ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کلبھوشن کا مقدمہ موجودہ حکومت کو ورثے میں ملا ہے۔ اگر کلبھوشن کو سزا موت دینا ضروری تھا تو نوازشریف کے دورے حکومت میں دے دیتی۔ چندہفتہ مقدمہ چلتا اور قصہ تمام ہوجاتا۔بھارت یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے گیا۔ اگر حکومت پاکستان اس وقت عالمی عدالت انصاف کیjurisdiction تسلیم کرنے سے انکار کردیتی تو مقدمہ ہی نہ چلتا۔حالانکہ ایسی کئی ایک مثالیں موجود تھیں جنہیں بنیاد بنا کر پاکستان ایسا کرسکتاتھالیکن نوازشریف حکومت نے غفلت کا مظاہرہ کیا۔اس زمانے میں نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کلبھوشن کانام لینے تک سے گریز کیا کہ مباد ا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ناراض ہوجائیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اب وہی پارٹی ہنگامہ ڈال کر رائے عامہ کو گمراہ کررہی ہے۔ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ آچکا ہے کہ پاکستان کلبھوشن کو اپیل کا حق دے۔چنانچہ پاکستان نے قانون سازی کرکے کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا ۔ اسے بری نہیں کیااور نہ ہی اس کا مقدمہ ختم کیا۔ آج نون لیگ یا پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی تو بھی پارلیمنٹ ایسی ہی قانون سازی کرتی۔ جمہوری ممالک میں روایت ہے کہ حساس قومی معاملات پر اجتماعی موقف اختیار کیا جانا ہے۔ملکی مفاد کو گروہی سیاست پر ترجیح دی جاتی ہے۔اپوزیشن کی طرف سے کلبھوشن اور کشمیر پر سودے بازی جیسے الزامات افسوسناک ہی نہیں بلکہ قوم کے اعصاب شکستہ کرنے کے متراف ہیں۔عام شہریوں کو ادراک نہیں ہوتا کہ حساس نوعیت کے معاملات پر حکومت تنہا کوئی فیصلہ نہیں کرتی بلکہ ریاست کا پورا میکانزم اسے فیصلہ سازی کرنے میں مدد اور رہنمائی فراہم کرتاہے۔ خاص طور پربین الاقوامی قانون کے ماہرین اور وزارت خارجہ کے حکام اپنی رائے دیتے ہیں۔ حساس ادارے زیر غور مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔حکومتی ٹیم اس کے سیاسی اثرات اور مضمرات پر تجاویز پیش کرتی ہے ۔ اس کے بعد وہ فیصلہ کیاجاتاہے جسے تمام اسٹیک ہولڈرز قومی مفاد میں تصور کرتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کے فیصلہ پر حکومت کو معلوم تھا کہ اپوزیشن تنقید کرے گی۔ رائے عامہ بھی ناراض ہوگی۔ باوجود اس کے عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ کو قبول کیا گیا کیونکہ ایسا کرنا قومی مفاد کا تقاضہ تھا۔ اس لیے کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں جب حکومت میں ہوتی ہیں تو انہیں اکثر اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ ان فیصلوں کی قیمت بھی صرف انہیںہی چکا نا پڑتی ہے۔عوام نہیں جانتے کہ ایسے فیصلہ محض سیاستدان نہیں کرتے بلکہ یہ ادارجاتی ہوتے ہیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری صرف اور صرف سرابرہ حکومت کو اپنے سر لینا پڑتی ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی میں بحث کے بعد بالاخر بیرون ملک آباد پاکستانیوںکو ووٹ کا حق مل گیا۔ اورسیزپاکستانی اس ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ انہیں اپنے وطن سے جوڑے رکھنے اور ملک کے انداران کے اسٹیک پیدا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کیاجائے ۔نوے لاکھ کے لگ بھگ بیرون ملک مقیم پاکستانی دراصل اس ملک کے کماؤپوت ہیں۔ انہیں کے دم قدم سے ہمارے گلی محلے آباد ہے۔ امید ہے کہ اگلے چند برسوں میں اس فیصلہ کے مثبت ثمرات آنا شروع ہوجائیں گے۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم عبدالقیوم نیازی دس لاکھ کے لگ بھگ شہریوں کو جو یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں آباد ہیں، کو بھی آزادکشمیر اسمبلی کے الیکشن میں ووٹ کا حق دینے کا اعلان کرچکے ہیں۔ آزادکشمیر کی معاشی اور سماجی ترقی میںبیرون ملک کشمیریوں کا کلیدی کردار ہے۔ بلکہ وہ مقامی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے بھی یہ کشمیری سرگرم ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر کشمیر پر جاری لابنگ میں ان کا کردار مثالی ہے۔ انشااللہ ان کو بھی جلد ووٹ کا حو ملے گا۔ بالاخر خیبرپختون خوا اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرلیا گیا۔ تجویز کردہ نظام زیادہ بااختیار ہوگا اور شہری ضلعی یا شہری حکومت کو براہ راست منتخب کریں گے ۔نئے بلدیاتی نظام میں صوبے بلدیاتی اداروں کو بجٹ میں سے خاطر خواہ حصہ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔عمومی طور پرنوکری شاہی اختیارات منتقل کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔ نئے نظام میں سرکاری افسراور منتخب بلدیاتی نمائندوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کار زیادہ واضح ہوگی۔دسمبر میں خیبر پختون خوا میں اور پنجاب میں مارچ میں الیکشن ہوجائیں گے۔آزادکشمیر کی حکومت بھی مئی کے وسط تک بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے سرگرم ہے۔بلوچستان میں بھی اگلے برس کسی مرحلے پر الیکشن ہوجائیں گے۔ اگر ہر چار سال بعد الیکشن کا سلسلہ جاری رہاتووہ وقت دور نہیں جب بڑے سیاستدان میئر کے الیکشن لڑنے کو ترجیح دیںگے نہ کہ قومی اسمبلی کے۔ اس طرح اسمبلیوں میں ضرور وہی لوگ جانا چاہیں گے جنہیں قانون سازی سے دلچسپی ہوگی۔