اُس دن ہم لفظوں سے روئے تھے۔ جس دن زور آور پارٹیوں نے ایوانوں کے اندر اپنی اکثریت کے زور پر اٹھارویں ترمیم کر ڈالی تھی اور اپنے لیڈروں کے نعرے لگائے تھے۔ بڑی پارٹی نے کہا..... بھٹو زندہ باد..... چھوٹی پارٹی نے کہا باچے خان زندہ باد۔ تیسری چھوٹی پارٹی نے کہا___ الطاف بھائی زندہ باد! ہماری پارٹی چپ رہی۔ مَیں نے قائداعظم کی تصویر کی طرف دیکھا۔ تصویر کی آنکھ میں نمی تھی___ تجھ پہ قربان میری آنکھ کے سارے آنسو؟ تعلیم ، ثقافت، سیاحت اور بہبود آبادی اور دیگر کچھ محکمہ جات صوبوں کے حوالے کر دینے سے کارکردگی اور معیار کس طرح تباہ ہوا۔ ان محکموں کی تفصیل مَیں آئندہ کالموں میں گوش گزار کرو نگی۔ صد شکر کہ عالی قدر چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے خود ہی نظامِ تعلیم کی ڈوبتی کشتی کا نوٹس لے لیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ کوئی اچھے سے اچھا عمل یا بُرے سے بُرا کام زمینوں کے اوپر چھپ چھپا کر ہو رہا ہو‘ یا تحت الثریٰ میں ظاہر ہو کر رہتا ہے___لیجئے ہر اچھے اور بُرے کام کے ظاہر ہونے کا وقت آ گیا۔ اس سے پہلے سرکاری وپرائیویٹ یونیورسٹیوں کی کارکردگی کے بارے میں حکومتِ پنجاب کو متنبہ کیا گیا تھا۔ کہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ یونیورسٹیوں کے اندر پی ایچ ڈی، ایم فل، اور ماسٹرز کے "Thesis" تیس ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ پچاس ہزار تک بک رہے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں رجسٹرڈ یونیورسٹیوں کی تعداد 187 ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ یونیورسٹیوں کی تعداد 154 ہو چکی ہے۔ یہ یونیورسٹیاں کیا کر رہی ہیں۔ جعلی ڈگریوں کا جمعہ بازار لگ رہا ہے۔ اور thesis ٹکا ٹوکری بک رہے ہیں___ ۔ علم کی شمع علامہ اقبال کے کلام میں روتی رہ گئی۔ جنگل میں اُگی کھمبیوں کی طرح آئے دن نئی یونیورسٹیاں کھل رہی ہیں۔ جن کی وجہ سے شہریوں کا اپنے گھروں میں سکون سے رہنا محال ہو چکا ہے۔ ان کے معیار‘ مقام اور نصاب کو جانچنے کا کوئی کلیہ قاعدہ قانون ہے کہ نہیں ہے۔ ٹھہرئیے! میں ذرا اپنے قارئین کے ساتھ اپنا دس سالہ تجربہ شیئر کر لوں۔ ایک روز رات کے وقت ایک نوجوان طالبہ اپنی بہن اور بھائی کے ساتھ ٹیکسی میں میرے گھر آگئی۔ اور آتے ہی رونے لگی کہ صبح سے ہم ٹیکسی لے کر نکلے ہوئے ہیں۔ آپ کا گھر نہیں مل رہا تھا۔ میں نے انہیں بٹھایا‘ تسلی دی‘ آنے کی وجہ پوچھی۔ تو اُس نے اپنے شہر کا نام اور یونیورسٹی کا نام بتا کر کہا کہ میری ٹیچر نے مجھے بشریٰ رحمن کی کالم نگاری پر ایم فل کا thesis لکھنے کے لئے کہا ہے۔ میں نے پوچھا‘ تم نے کبھی ان کے کالم پڑھے ہیں۔ کہنے لگی نہیں..... میں نے پھر کہا تمہیں ان کے کالم کا عنوان پتہ ہے۔ کہنے لگی نہیں۔ میں نے پوچھا‘ جس اخبار میں وہ لکھتی ہیں تمہیں اُس کا نام آتا ہے۔ کہنے لگی نہیں۔ پھر میں نے کہا اگر تم نے کبھی اُن کے کالم نہیں پڑھے‘ وہ اخبار بھی نہیں پڑھا تو کیسے ایم فل کا thesis لکھو گی۔ تمہاری ٹیچر نے تمہاری راہنمائی نہیں کی___ بولی نہیں..... بس انہوں نے مجھے کہا تھا۔ لاہور چلی جاؤ اُن کا گھر ڈھونڈھ لو وہ تمہاری مدد کر دیں گی۔ پھر ایک دن ایک طالبہ آگئی۔ بولی! فلاں پروفیسر نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ آپ کے سفرناموں پر ایم فل کا thesis لکھنا ہے۔ وہی جواب کہ میں نے کبھی آپ کے سفرنامے نہیں پڑھے نہ اُن کے نام جانتی ہوں۔ پروفیسر نے کہا تھا۔ اُن کے پاس چلی جاؤ وہ تمہاری مدد کریں گی۔ ہر تیسرے مہینے کوئی لڑکا یا کوئی لڑکی میرا گھر ڈھونڈتے ہوئے آ جاتے ہیں۔ کبھی اُن کے اُستاد فون کر کے سفارش کر دیتے ہیں کہ پلیز ان کی ہر طرح سے مدد کیجئے۔ یعنی اپنے بارے میں پورے کا پورا thesis لکھوا دیجئے۔ کبھی کوئی طالب علم دُور دراز کے علاقے سے فون کر کے کہہ دیتا ہے کہ آپ کی ناول نگاری پر جتنے تنقیدی مضامین لکھے گئے ہیں۔ مجھے بھجوا دیجئے۔ کیونکہ میرے پروفیسر نے کہا ہے۔ سارا میٹر وہ خود دے دیں گی..... مَیں معافی چاہتی ہوں۔ اپنے حوالے سے بات کرنا مجھے کبھی اچھا نہیں لگا۔ مگر میں جلی بیٹھی ہوں۔ وہ جو لڑکے اور لڑکیاں ایم فل یا ایم اے کا thesis لکھنے کے لئے میرے پاس آتے ہیں اُن کے پاس کسی قسم کا نالج نہیں ہوتا۔ ایک فقرہ اُردو کا صحیح نہیں لکھ سکتے بلکہ چاہتے ہیں کہ پوری گفتگو مَیں انہیں ریکارڈ کر کے دے دوں۔ اپنی ساری کتابیں دے دوں‘ سارے تنقیدی مضمون بھی دے دوں۔ بلکہ اپنا انٹرویو بھی پورا کا پورا لکھ کے دے دوں___ ۔ مَیں نے اپنے ہم عصر خواتین وحضرات سے جو ادب اور سخن میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ایک دن اس مسئلے کے بارے میں پوچھا تو وہ سب کے سب شاکی نظر آئے۔ سب نے یہی بتایا کہ لڑکیاں اور لڑکے ان پر thesis لکھنے کے لئے آتے ہیں اور ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ چاہتے ہیں کہ سارا میٹر مصنف یا ادیب خود فراہم کرے___ اگر یہ کام رائٹر کا ہے تو اُستاد کس لئے ہوتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ہمارے اساتذہ ہمیں thesis لکھنے کے لئے پہلے موضوع اور شخصیت کا صحیح انتخاب کرنے کو کہتے تھے۔ اور جب انتخاب میں اُن کی تسلی ہو جاتی تھی تو پھر وہ کہتے تھے۔ جاؤ اُس مصنف یا مصنفہ کی ساری تخلیقات جمع کر کے پڑھو۔ یا ساری شاعری کا مطالعہ کرو۔ اور اپنا مطمح نظر بھی لکھ کر لاؤ کہ تمہیں کیا سمجھ میں آیا ہے۔ پھر کہتے تھے۔ جاؤ ان کے بارے میں نقادوں کی رائے جمع کر کے لاؤ___ آخر میں کہتے تھے اُس شخصیت کے ساتھ ایک طویل انٹرویو کر کے آؤ___ہر کام وہ اپنی سپرویژن میں کرواتے تھے اور اس میں مہینوں لگ جاتے تھے۔ یہ کس قسم کے اُستاد ہیں جو شاگردوں کی راہنمائی کرنے کی بجائے انہیں بے مہار چھوڑ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے جب اُن کو پڑھنے کا شوق بھی نہیں ہے‘ کتاب سے بھی رغبت نہیں ہے‘ اُستاد کی طرف سے بھی گائیڈنس نہیں ہے۔ پھر تو اس نے thesis خریدنا ہی ہے۔ اور پھر بیچنے والے کونسے دُور بیٹھے ہیں۔ انہوں نے تو قیمتوں کے ٹیگ لگا کر ٹکاٹوکری thesis بیچنے کا بازار لگا رکھا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جعلی ڈگریوں کا بھی کاروبار کرتے ہیں۔ کیا جعلی ڈگریاں ایشو کرنے پر کسی سرکاری یا پرائیویٹ یونیورسٹی کی گرفت ہوئی۔ اب قارئین سے معذرت کے ساتھ آپ کو ایک اور واقعہ بھی سنانا چاہتی ہوں۔ 1998ء میں حیدر آباد دکن (انڈیا) سے ایک خاتون لاہور آئیں۔ اُن کا نام پروفیسر میمونہ شاہ بانو تھا۔ انہوںنے بتایا کہ وہ دکن یونیورسٹی میں عرصہ سے پڑھا رہی ہیں۔ ان کی خواہش پر انہیں وائس چانسلر کی طرف سے پاکستان آکر thesis لکھنے کی اجازت مل گئی ہے۔ تو وہ خصوصی ویزا لے کر پاکستان آئی ہیں۔ انہوں نے مجھے وائس چانسلر کی طرف سے لکھا ہوا اجازت نامہ بھی دکھایا۔ اور یہ بھی بتایا کہ بشریٰ رحمن کے فن اور شخصیت پر ریسرچ thesis لکھنے کی مدت انہوں نے تین سال مقرر کی ہے۔ اس عرصے میں انہیں چھ سو روپے ماہانہ وظیفہ بھی ملتا رہے گا۔ تاکہ وہ بار بار پاکستان جا سکیں___ یہ سب سن کر میرا فرض بنتا تھا کہ میں اُن کی مہمان نوازی کرتی۔ اپنی ساری تصنیفات اُن کی خدمت میںپیش کرتی۔ تنقیدی مقالے بھی اُن کو دیتی اور جب جب وہ پاکستان آتیں اُن کی راہنمائی کرتی۔ اور ادبی دُنیا کی مختلف شخصیات سے ان کو ملواتی۔ جو میں نے ایک فرض سمجھ کر کیا۔ان دنوں پی ٹی وی لاہور سے میرا ڈرامہ سیریل ’’پیاسی‘‘ چل رہا تھا۔ یہ ان کے لئے ایک اضافی کام بن گیا۔ اور انہوں نے بطور ڈرامہ نگار بھی ایک باب لکھ ڈالا۔ چھ سو صفحات کا یہ چھپا ہوا مقالہ وہ مجھے دکھانے کے لئے لائی تھیں۔ اپنے کام کے دوران انہوں نے بہت سی تصویریں بھی بنوائی تھیں جو اس مقالے میں لگائیں۔ میرے شوہر اور بچوں سے بھی انٹرویو کئے۔ یہی طریق کار thesis لکھنے کا ہوتا ہے۔ جس دردمندی کا جناب چیف جسٹس نے اظہار کیا ہے۔ اس سے بہتری کی اُمید جاگتی ہے۔ وہ جانتے ہیں ایچ ای سی میں ایڈہاک ازم‘ اقرباء پروری اور میرٹ کی پاسداری نہ ہونے کے باعث ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم کے معیار میں انتہائی نچلے درجے کی گراوٹ ہو چکی ہے۔ اس گراوٹ نے ہمارے تعلیمی کلچر کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ آپ ان یونیورسٹیوں کے اندر جا کر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا آپ کو تہذیب وتمدن کا وہ ماحول ملتا ہے۔ جو ایسے اداروں کا خاصہ ہونا چاہیے یا جو دُنیا بھر کی ترقی یافتہ یونیورسٹیوں میں ملتا ہے۔ غالباً اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا ؎ جلوتیان مدرسہ کور نگاہ مردہ ذوق خلوتیانِ میکدہ کم طلب و تہی کدو!