تم چشم طلسمات گہر بار تو کھولو گل ہائے سحر خیز کی صورت کبھی بولو اک درد ہے ہونے کا جو سونے نہیں دیتا اے چشم تماشہ جنوں تم بھی تو سو لو غالب نے کہا تھا ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘ نوحہ غم نہ سہی نغمہ شادی ہی سہی۔ اس شعر کی تہداری اپنی جگہ مگر غمی خوشی ساتھ ساتھ ہی ہے۔ بعض اوقات دونوں صورتوں کی غماضی آنسو کرتے ہیں۔ منیر نیازی نے کمال بات کی تھی کہ بین کرتی عورتیں‘ رونقیں ہیں موت کی۔ اور سو سو فکروں دے پرچھاویں‘ سو سو غم جدائی دے۔ اسی ہنگام کہ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے نتائج اخباروں کی شہ سرخی بن کر اہمیت اختیار کرلی ہے۔ موسم کے بدلنے کا یہ ا استعارہ ا بھی ہے کہ روایت کے مطابق ضمنی سیٹ حکومت وقت ہی کی ہوتی ہے کہ لوگوں کے مفادات ثمربار ہونے کے امکان ہوتے ہیں۔ ن لیگ کی سیدہ نوشین افتخارنے 110075 لیے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی نے 93433 ووٹ حاصل کیے ۔ پی ٹی آئی کے امیدوار کو علی اسجد ملہی کوبھی کافی ووٹ ملے۔ حکومت کی کارکردگی یہی رہی تو پنجاب ان کی مٹھی سے ریت کی طرح پھسل جائے گا۔ ایسے ہی شعر یاد آگیا: یہ زندگی تھی کہ تھی ریت میری مٹھی میں جسے بچانے کے دن رات میں نے حیلے کئے اسی زندگی کے چوکٹھے سے نکل جانے والے اپنے کچھ ادیبوں پر مجھے آج لکھنا ہے کہ اپریل عین بہار میں شفیق سلیمی‘ نجیب احمد اور کرن وقار ہمیں چھوڑ گئے۔ ابھی بہار کا نشہ لہو میں رقصاں تھا‘ کف خزاں نے ہر اک شے کے ہاتھ پیلے کئے۔ پہلے شفیق سلیمی کی خبر آئی۔ وہ استاد شعرا میں سے تھے۔ معروف شاعر اور دانشور جلیل عالی کے وہ بھائی تھی۔ بہت عرصہ وہ ابوظہبی میں معلم رہے۔ جب خالد احمد اور میں وہاں مشاعرے پر گئے تو قیام انہی کے پاس تھا۔ ڈاکٹر فاروق زبیر ان کے شاگردوں میں ہیں۔ ان کا ایک شعر بہت ہی مشہورہوا تھا: بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے پھر خبر آ گئی کہ ہمارے عہد کے نہایت خوبصورت شاعر اور نفاست و شائستگی کا نمونہ شخصیت‘ نجیب احمد ہمیں چھوڑ گئے‘ ادبی دنیا میں دو ہی جوڑیاں مشہور ہوئیں امجد اسلام امجد اور عطاء الحق قاسمی اور دوسری طرف خالد احمد اور نجیب احمد۔ ان کے ساتھ کم و بیش پنتیس سال کی ہماری بھی رفاقت ہے۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور ‘ شرافت، نجابت ،عاجزی وانکساری ان کی شخصیت کا حصہ تھیں: سفارش ہو میرے آقا سفارش ہو نکما ہوں رعایت چاہتا ہوں ان کے ساتھ مجھے بہت انس تھا۔ میرے غزل مشاعرہ میں وہ اکثر مہمان ہوتے۔ کئی جگہ ہم اکٹھے مشاعروں میں گئے۔ اصل میں وہ احمد ندیم قاسمی کے ادبی خاندان کے اہم فرد تھے۔ اختر حسین جعفری ان سب میں سرکردہ تھے۔ خالد احمد اور نجیب احمد کی ان سے ایسی بے تکلفی کہ جعفری صاحب ٹی ہائوس میں آ تے تو سب سے پہلے وہ ان سے چائے کے پیسے مانگتے۔ یہ محبت کا انداز تھا۔ میرا یہ فخر کہ نجیب احمد کا شعری مجموعہ ’’ملال‘‘ میں نے شائع کیا۔ خزینہ علم و ادب سے ان کا۔ ایک شعر مجھے ہانٹ کرتا رہتا ہے اور وہ شعر کس قدر مناسبت رکھتا ہے اس عہد سے: عجب اک معجزہ اس دور میں دیکھا کہ پہلو سے یدبیضا نکلنا تھا مگر کاسہ نکل آیا ایک اور شعر ذہن میں آ گیا: ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں ہیں ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے ان کے بہت سے شعر زبان زد خاص و عام ہیں۔ پہلی مرتبہ ان کی زبان سے ایک شعر سنا تھا اور بھولا نہیں: کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا۔ سمندر تک اچھلتا جارہا ہے۔ ان کے مزاح کا ایک شعر پھر سامنے آ گیا۔اس شہر بے مثال میں سارے ہیں بے مثال۔ تجھ سا نہیں ہے کوئی نہ مجھ سا ہے کوئی اور۔ اس قبیلے میں عمران منظور‘ نعمان منظور اور اعجاز رضوی بھی شامل ہیں کہ اب مرکز فنون کی بجائے ماہنامہ بیاض ٹھہرا۔ ویسے فنون قاسمی صاحب کی بیٹی ناہید قاسمی نکال رہی ہیں۔ سوچتا ہوں تو اداس ہو جاتا ہوں کہ کیسی کیسی محفلیں الحمرا کی ادبی بیٹھک میں سجیں۔ پہلے ہمارے دوست رفیق غوری گئے ،پھر خالد احمد اور اب شفیق سلیمی اور نجیب احمد۔ مکاں تو مکینوں سے ہوتے ہیں۔ اعجاز کنور راجہ اور ہمارے استاد ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا بھی تو اداس ہوں گے کہ وہ اس محفل کے محترم ممبرز ہیں۔ ایک بات نجیب احمد کی مجھے بہت اپیل کرتی ہے کہ وہ پکے نمازی تھے اور ان کے ساتھ الحمرا کی مسجد میں اکثر میں نماز پڑھتا۔ ان کی طبیعت میں نیکی‘ خیر اور اثبات تھا۔ کم گو تھے مگر بذلہ سنج بھی۔ ایک دن خالد احمد کے ایک اور مداح نے گوشت لا کر دیا۔ خالد احمد کہنے لگے یہ اکٹھا گوشت لے آتا ہے مگر بہت دیر لگا کر آتا ہے۔ پاس بیٹھے نجیب احمد نے کہا‘ کئی دکانوں سے اکٹھا کرنا ہوتا ہے: شام ہوتے ہی اڑ گئے پنچھی وقت جتنا بھی تھا پرایا تھا اب ایک اور جاں کاہ المیہ پیش نظر ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ آج کل کورونا کی وبا ہے۔ہمارے کچھ دوست اللہ کے فضل سے واپس زندگی میں آ گئے۔ یعنی صحت یاب ہو گئے۔ ہماری ایک جواں سالہ شاعرہ کرن وقار مگر اس کی شکار ہو گئی۔ اس سانحہ پر ہر شخص اشک بار ہوگیا کہ کرن وقار نے پہلے اس وبا سے سگا بھائی‘ ماں اور پھر خود بھی متاثر ہوئی اور پھر جو بھی مشیت ایزدی میں تھا ۔ اس کی ننھی سی پری بیٹی ہے‘ اللہ اسے زندگی دے کیسے ماں کو یاد کیا کرے گی۔ ادبی حلقوں میں اس موت کو بہت محسوس کیا گیا ہے۔ اس نے تو ابھی بہت بہاریںدیکھنا تھیں۔ مگر جب بلاوا آ جائے تو کون کسی کو روک سکتا ہے۔ کہنے کی بات یہ کہ خدارا احتیاط ضرور کریں۔ میں خود بھی ماسک پہننے لگا ہوں۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ پینک نہ پھیلایا جائے ۔بہت زیادہ لوگ صحت یاب بھی ہو گئے، ایس او پیز پر عمل کرنا چاہیے۔ کرن وقار بہت فعال تھیں، اکثر محفلوں اور مشاعروں میں وہ آتیں اور اب آخر میں اپنے بہت ہی پیارے دوست اور مرغزار کالونی لاہور میں مثالی کام کروانے والے چوہدری محمد شہزاد چیمہ کی والدہ ماجدہ کے رخصت ہونے پر ان سے تعزیت۔ رات ان کی والدہ کے جنازے پر کچھ زیادہ ہی رش تھا۔ بے شمار لوگ ماسک کے بغیر تھے جبکہ بچے وہاں ماسک بیچ رہے تھے۔ کرن وقار کی غزل کے دو شعر: رات بھر انتظار کرتی رہی میں ترا انتظار کرتی رہی دل کے بہلانے کو خزاں رت میں ذکر فصل بہار کرتی رہی