ہم کے چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم کی پشیمانی کو کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے کیا آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو آج میرا دل چاہا کہ سیاست سے ہٹ کر فن کی بات کی جائے۔ ویسے تو سیاست بھی فنکاری ہے۔ الیکشن لڑنا باقاعدہ ایک ہنر ہے ویسے تو اس میں اب پیسوں کا عمل دخل ہے پھر بھی یہ ایک فن اور آرٹ ضرور ہے۔ اس میں جوڑ توڑ بھی اپنی جگہ اور صلاحیت کا بھی مقام ہے۔ الیکشن میں یہ یقین رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ منصفانہ نہیں ہوتے کہ یہ عمل بھی اسی معاشرے کا ایک عکس ہے کہ جہاں کرپشن کو حق مانا جائے اور حکومتی سطح پر این آر او کو آئین کا حصہ بنانے کی کوشش کی جائے یا کم از کم اسے قانونی تحفظ فراہم کرنے کی سعی کی گئی ہو‘وہاں انتخاب کو شفاف بنانا خود کو گندا کرنے کے مترادف ہے۔ وقت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور زمینی حقائق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی طور پر یہ نظریہ ضرورت ہی ہے جو کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہے آپ بھیڑھے اور میمنے کی کہانی سے مت جوڑیں جو پانی گدلا کرنے کے بہانے میمنے کو کھا گیا تھا میمنے نے دوسری گستاخی یہ کی تھی کہ کہنے لگا قبلہ پانی کا بہائو تو اس کی طرف ہے ویسے کہانیاں ایسے ہی نہیں بن جاتیں: بخت جب یاوری نہیں کرتا بے گناہی بھی مار دیتی ہے کچھ مجبوریاں بھی تو ہوتی ہیں کہ حکومتیں بے بس ہو جاتی ہیں۔ آپ سینٹ کا الیکشن دیکھ لیں اگرچہ اس پر اتنا کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے کہ گنجائش نہیں مگر پھر بھی گنجائش نکل سکتی ہے اب بتائے کہ حکومت بھی کیا کرے کہ وہ اس الیکشن کو شفاف بنانا چاہتی تھی۔ اب کیمروں پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے ہی تو الیکشن کمیشن سے ہا تھا کہ سینٹ کے الیکشن کو صاف اور شفاف بنائے: ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی بات فن اور فنکاری تک رہناچاہیے تھی۔ بات بڑھ کر ہاتھا پائی تک آ گی ہے۔ یعنی پارٹیوں کے عسکری ونگز متحرک ہو گئے ہیں۔ اس جمہوریت میں یہ پہلو بہت نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے پارلیمنٹ سے باہر ن لیگ کے رہنمائوں پر جوتا پھینکا گیا اور اب شہباز گل پر عدالت سے باہر سیاہی اور انڈے پھینکے گئے۔ مزے کی بات تو شہباز گل کی جوابی کانفرنس تھی جہاں وہ ہیرو کے روپ میں اپنا تعارف کروا رہے تھے وہ گلوں کے پتر ہیں۔ گل کی جمع گلوں ہے۔ گل جٹوں کی ایک قسم ہے۔ گ کے نیچے زیر ہے زبر نہیں۔ زیر ہو تو گل کے معنی مٹی کے ہیں اور اگر گ پر پیش ہو تو گل معنی پھول ہے۔وہ مہذب ہیں اسی لیے انہوں نے کہاکہ وہ تھپڑ کے مقابلے میں تھپڑ نہیں ماریں گے بلکہ انہیں سمجھائیں گے۔ ہاں ایک بات میں لکھنے پر مجبور ہوں کہ مریم نواز کے حوالے سے ان کا لب و لہجہ درست نہیں تھا۔ تہذیب اور شائستگی اس کی اجازت ہرگز نہیں دیتی۔ ہم نے تو روحیل اصغر کی گندی زبان پر تبصرہ تک نہیںکیا۔ ویسے ہی فراز کا لاجواب شعر یاد آ گیا کہ لفظ بولتے ہیں: ذکر اس غیرت مریم کا جب آتا ہے فراز گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیسائوں میں آخر ہماری سیاست کو ہو کیا گیا ہے کہ ہم اپنے اپنے لوگوں کا دفاع کرتے اور ہر غلط بات کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک لمحے کے لئے آپ ان کے اعلامیے دیکھ لیں ن لیگ والے جواز رکھتے تھے یہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں۔ یعنی زرداری صاحب سب کچھ کھا جاتے تھے اور ان کے دوستوں کو یہ فخر تھا کہ زرداری صاحب دوسروں کو بھی کھانے سے نہیں روکتے ان کا انداز و واقعتاً یہی ہے کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ وہ یاروں کے یار ہیں۔ تیسرا علامیہ پی ٹی آئی کا ہے کہ عمران خاں کو ڈیڈ آنسٹ ہیں۔انتہائی ایماندار۔ یعنی وہ خان صاحب کی ذات کے حوالے تک رک جاتے ہیں۔ این ٹی ایم مشینوں اور آٹا چوروں کی بات گول کر جاتے ہیں لے دے کے جماعت اسلامی رہ جاتی ہے مگر اتنا ایماندار بھی تو کسی کو نہیں ہونا چاہیے لوگوں ا س سے بھی مطمئن نہیں کہ جو اپنے لئے کچھ نہیں بنا سکے وہ دوسروں کے لئے کیا کریں گے۔ آخر بندے کو سو کام کروانا ہوتے ہیں۔ زاہد خشک کی ہماری سیاست میں کوئی گنجائش نہیں: اپنا مقصد یہ نہیں تھا سعد سب کچھ چھوڑ دیں اور ہی کچھ بن گئے ہو تم سدھر جانے کے بعد میرے معزز قارئین!اب بتائیے کہ میں تو فن و ادب کے حوالے سے لکھنے کا آرزو مند تھا مگر سیاست پر بات آگے بڑھتی گئی گویا ہمیں بھی مزہ لینے کی لت پڑ گئی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں سب سے اچھی بات چودھری شجاعت کی لگی کہ عوام مہنگائی سے مر رہی ہے جبکہ حکومت اور اپوزیشن بھنگڑے ڈال رہی ہیں اب تو خیر ایک دوسرے پر جوتے اور انڈے بھی وہ پھینک رہے ہیں۔ اب پرویز الٰہی نے بھی زور دے کر کہا ہے کہ خدا کے لئے مہنگائی کا کچھ کریں ہم پرویز الٰہی کے اس حوالے سے معترف ہیں۔ مثلاً 1122جیسے پروگرام ان کے ہیں۔ کاش ان کو ہی بزدار کی جگہ لے لیا جاتا تو کچھ نہ کچھ کام ضرور ہو جاتا۔ اب تو کچرے کا لاہور میں اتنا شور ہے کہ کراچی دوسرے نمبر پر چلا گیا ہے۔ باقی معاملات بھی کوئی قابل تعریف نہیں ہیں مثلاً ایک آئیڈل مثال وہ سڑک ہے جو مرغزار سے نیاز بیگ کو ملاتے ہوئے ٹھوکر تک جاتی تھی۔ اب سڑک کی حالت زار دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہاں کبھی سڑک تھی مزے کی بات یہ ہے کہ کھوکروں کا علاقہ ہے۔ ظہیر کھوکھر جو پی ٹی آئی کی طرف سے جیتے اور سیف الملوک کھوکھر جو ن لیگ کے تحت ہارے تھے حکومت نے ان کا ناجائز محل تو گرا دیا مگر جائز سڑک تعمیر نہیں کروائی۔ آخر میں ندیم ملک کا ایک پیارا سا شعر: صورت عشق نئی گریہ و زاری کے ساتھ کر رہا ہوں دشت میں فریاد غم خواری کے ساتھ