ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ پاکستانی سیاست کا انوکھا لاڈلا، بلاول زرداری کہ جو جھولا جھولنے کی عمر میں بھی ملکی اقتدار سے نیچے کی بات ہی نہیں کرتا تھا کیونکہ اسے پاؤں پاؤں چلنے سے قبل ہی باور کرا دیا گیا تھا کہ یہاں نہایت فنکاری سے، وراثت کی سیاست ہی کے اوپر جمہوریت کا مضبوط لیبل چِپکا دیا گیا ہے۔ یہ اِرد گرد خود کو سینئر رہنما کہنے والے سفید مُو بابے محض غلامی میں سینئر ہیں۔ اپنے دادا کی عمر کے اعتزاز احسن کی بلاول کے ہاتھوں پارٹی بدری بھی دوسروں کو ان کی اوقات یاد دلانے کے لیے ہے، بقول فاطمہ حسن: کرتا رہا غلامی کے احساس کو شدید زنجیر کھول دی ، کبھی پہرہ بدل دیا ابھی کل کی بات ہے کہ اسی عزیزی کے دو ڈھائی ٹرکوں پر مشتمل ’ہجوم‘ کی دہشت سے اسلام آباد کی کانپیں ٹانگتی تھیں اور اسے ملک کے ہر گوشے میں مہنگائی کا طوفان دکھائی دیتا تھا۔ یہ بھی انہی دنوں کی بات ہے کہ ابھی اس کی زبان سے پھسلتی ہوئی ’’پٹوکی‘‘ والا ارتعاش مدھم نہیں پڑا تھا کہ اسی ’پٹوکی‘ میں ایک پاپڑ والے کی لاش سامنے آ گئی، جو چند دنوں کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا کے اعصاب پہ بھوت بن کے سوار رہی۔ ایسا خوف ناک منظر کہ جو ہر کہ و مِہ کے دھیان گمان کی پُتلیوں میں گھس کے بیٹھ گیا۔ ہر دیکھنے والے کو اُس لاش کے منھ پہ بھنبھناتی مکھیوں اور کھانے پہ ٹوٹی پڑی مکھیوں میں صرف جسامت اور ندامت کا فرق نظر آیا۔ کس نے نہیں دیکھا کہ ہزاروں روٹیوں کے بھوکوں نے ایک روٹی کے بھوکے کا مار مار کے بھرکس نکال دیا۔ پروفیسر عنایت علی خاں نے کسی زمانے میں ہمارے اسی قومی، سماجی المیے کو شعر بنایا تھا کہ: حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر یقین جانیں ہمیں تو وہ لاش کسی پاپڑ بیچنے والے کی لگتی ہی نہیں تھی بلکہ اُس لاش کے اوپر نمایاں طور پر قومی سلامتی، اجتماعی ضمیر، سماجی احساس کا ٹیگ دیکھا جا سکتا تھا۔حقیقت یہی ہے کہ اُن کھانے والوں کی شکلوں سے بھی نہ صرف صدیوں کی بھوک مترشح تھی بلکہ ان حِیلوں، حُلیوں میں بھی ہمہ وقت بکاؤ، جھکاؤ، گھکاؤ، ملکی سیاست دانوں، نسل در نسل لوگوں کے وسائل اور قسمتوں پہ قابض وڈیروں، لفافہ بردار قلم کاروں، زبان بازوں اور ہوس کے پُتلے سرمایہ داروں کی شبیہیں واضح طور پر پہچانی جا سکتی تھیں۔ اُس پاپڑ والے کا بنیادی قصور یہ تھا کہ اس نے محض برات میں پھینکے جانے والے چند نوٹ لُوٹنے پر اکتفا کی ، وہ کسی بنک، کسی سرکاری محکمے یا قومی خزانے پہ ہاتھ ڈالتا تو مجال ہے کوئی اس کا بال بھی بیکا کر سکتا۔ مشتاق احمد یوسفی کہاکرتے تھے کہ جو شخص بنک سے معمولی قرض لے، اس کی جان، مال، کاروبار اورعزت، بنک کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور جو اُسی بنک سے بھاری ترین قرض لینے میں کامران ٹھہرے، بنک پھر اُسی زعیم کے رحم و کرم پر ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کائنات کا خوف ناک اور دیرینہ سماجی المیہ ہے کہ یہاں قارون، ہمیشہ قانون سے بالا ہوتا ہے۔ پھر وقت کی شبیہہ پہ ایسے پاپڑوں اور گول گپوں والے کردار بھی مثال اور ثبوت بن کر اُبھرے کہ جن کے بھولے بھالے اکاؤنٹ راتوں رات ڈالر، پاؤنڈ اوردینار تھوکنے لگے،لیکن کس کی مجال تھی کہ اُن کی جانب آنکھ بھی اُٹھا کے دیکھے، یہاں تو ہر ادارہ، ہر کمشن، ہر اتھارٹی اپنی اپنی پتوکی قائم رکھنے کی فکر میں تھی۔ ان سے مایوس ہو کر وہ کردار حیرانی کی فراوانی ہی میں رقوم کی منتقلی والی خاموشی سے عالمِ فانی سے دست بردار ہو کر عالمِ بقا کو سدھار گئے۔ قصداً جاہل رکھے گئے بے بس عوام کو تو ویسے بھی لاش پہ بھنبھناتی مکھیوں اور بھوکے براتیوں کی مانند پیٹ بھرنے کے لیے روٹی درکار ہوتی ہے۔ وہ کرتے بھی تو کیا، ظالم کوے اور مظلوم چڑیا کی پرانی کہانیوں میں ایک جملہ بار بار دہرایا جاتا تھا: چڑی وچاری کیہ کرے تے ٹھنڈا پانی پی مرے ایک زمانے میں ایسا ہوا کہ عمران خان جیسے ہٹ دھرم اور ضدی شخص نے سماج کے ٹھہرے ہوئے گدلے پانی میں کڑوے سچ کا پتھر پھینک دیا۔ چالیس سالوں سے گھاگ نظروں کے اشاروں پہ چلنے والے معدہ پرور کرداروں کی ملی بھگت سے جیسا تیسا وقت گزر رہا تھا کہ اس انا پرست شخص نے سارا کھیل خراب کر دیا۔ اس کو معاملہ فہم بنانے کے بہت چارے کیے گئے۔ یہاں تک کہ حکومت بنانے دی گئی لیکن اس کے سر پہ قوم کو حقیقی آزادی دلانے اور ’حکمتِ عملی‘‘ سے حاصل کیے گئے پیسوں کو کرپشن قرار دیے جانے کا جنون سوار تھا۔ اسے شہزادہ نما لوگوں کی محل ماڑیاں اور نسل در نسل میسر آنے والی سہولت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ سب سے بڑا جرم اس نے یہ کیا کہ وطنِ عزیز میں کسی نہ کسی طرح تعلیم یافتہ ہو جانے والی پود کو اپنے ساتھ ملا لیا، جو اتفاق سے اس ملک کا پینسٹھ فیصد ہے۔ یعنی قدم قدم سیاست، مذہب، نسل کے نام پہ موج میلے کرتی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی پتوکیوں کے بیچوں بیچ اپنی دھواں دار ’سچو کی‘ آباد کر ڈالی، جس کی آبادی اور رقبے میں اضافہ، کسی حساب کتاب اور اندازوں سے بھی ماورا ہے۔ ابھی نادرا کے لرزہ خیز اعداد و شمار کے مطابق آنے والا ہر لمحہ اٹھارہ کا ہندسہ تیزی سے عبور کرنے والے ’ناسمجھوں‘ کے روز افزوں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ اسی ’ناسمجھی‘ نے اپنے اپنے رواج، مزاج میں آباد درجن بھر پتوکیوں کو ایک پتو کی کے برابر بھی نہیں چھوڑا۔ ایک انوکھی حرکت اس نے یہ کی کہ جی حضوریوں، یس مینیوں، پیریں پینیوں کے پُر سکوت موسم میں بیٹھے بٹھائے ’ ایبسیولوٹلی ناٹ‘ کی راگنی چھیڑ دی۔ جہاں دیدہ لوگوں نے تو اُسی دن سے کہنا شروع کر دیا تھا کہ: دل کا جانا ٹھیر گیا ہے ، صبح گیا یا شام گیا پھر وہی ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار معدے ، عزم اور اِزم پہ غالب آ گئے۔ حکومت گئی، مقدمات بنے، ضمنی الیکشن کی بھٹیاں پخائی گئیں۔ ہر بار نتیجہ ناقابلِ یقین ۔ اس کے بعد ایک ہی حل رہ گیا تھا، بقولِ شاعر: جسے صرف حق ہی قبول ہو، یہی جس کا اصلِ اصول ہو جو نہ بِک سکے، جو نہ جھک سکے، اسے کربلائیں ہی راس ہیں ایک زمانہ تھا کہ سب کے حلق میں عثمان بزدار اَٹکا ہوا تھا، اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ڈرامے بازی، بدمعاشی اور آنیاں جانیاں کے ہنر سے ناواقف تھا۔ اُسے قومی خزانے کی دُکان سے نانا جی کی فاتحہ دلوانا نہیں آتا تھا۔اُسے ٹٹ پَینے بلکہ ٹُٹ کے پَینے صحافیوں کی ضرورتوں کا خیال نہیں تھا۔ وہ چٹاکتے پٹاکتے اینکرز کے ساتھ جوڑ توڑ کی اداؤں سے بیگانہ تھا۔ اِس وقت ملکی صورتِ حال یہ ہے کہ مہنگائی، غربت، سیلاب، عدم تحفظ کے اژدہے ملکی سلامتی نگلنے کے لیے منھ کھولے بیٹھے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم نہیں، صحت کا یہ حال ہے کہ عالمی سروے کے مطابق ہمارے مسیحا 95 فیصد ادویات مرض کی بجائے میڈیسن کمپنیوں کی کمیشن دیکھ کے لکھتے ہیں۔ لاکھوں مقدمات زیرِ التوا ہیں اور ہمارے سیاسی بزرجمہر عوامی شعور کے منھ زور تھپیڑوںسے اپنی اپنی ڈگمگاتی پتوکی بچانے میں مصروف ہیں۔