حضرت حفیظ جالندھری نے برسوں قبل مخدوم یوسف رضا گیلانی‘ عبدالغفور حیدری اور مولانا فضل الرحمن کے دلی جذبات کی ترجمانی کس خوبصورت انداز و الفاظ میں کی تھی ؎ دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبدالغفور حیدری کو صورتحال کا ادراک ہے‘پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں مذہبی رہنما مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے جواب طلبی نہ سہی‘ بھرپور گلے شکوے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکنے‘ کو وہ بھی تیار نہیں‘ عمران خان کی مخالفت میں حضرت مولانا کو یہ تک یاد نہ رہا کہ وہ پی ڈی ایم کی شکل میں بھان متی کا جو کنبہ جوڑ رہے ہیں‘ ان کے دل آپس میں ملتے ہیں نہ تصورات۔ ؎ اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا ورنہ تو میرا نہیں تھا اور میں تیرا نہ تھا عام فہم سی بات ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے جو 8ووٹ مسترد یا خراب ہوئے‘ وہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر مولانا عبدالغفور حیدری کو ملنے چاہئیں تھے ‘یہ سات آٹھ سینیٹر مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھتے تھے یا پیپلز پارٹی سے۔ مگر ان میں سے چھ نے تحریک انصاف کے نامزد اُمیدوار مرزا محمد آفریدی کو ووٹ دے کر یہ ثابت کیا کہ ایک مذہبی رہنما کے مقابلے میں ان کے لئے پی ٹی آئی کا اُمیدوار زیادہ قابل قبول ہے۔ یہ پتہ چلانے کے لئے ارسطو کی عقل درکار ہے نہ افلاطون کی ذہانت کے اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے نصف درجن ارکان نے ایک مذہبی جماعت کے اُمیدوار کے مقابلے میں مرزا آفریدی کا انتخاب کیوں کیا؟روایتی طور پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کا ووٹر اور سپورٹر کٹر مذہبی جماعتوں اور تحریک پاکستان میں مسلم لیگ و قائد اعظم کی مخالفت کرنے والی مذہبی قیادت کے ہمیشہ خلاف رہا ہے۔میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے سیاسی اور ذاتی ضرورتوں کے تحت بڑی مشکل سے عبدالولی خان‘ فضل الرحمان اور اچکزئی خانوادے کو اپنے ارکان اسمبلی کے لئے قابل قبول بنایا‘ وگرنہ ماضی کے اتحادوں میں بھی شامل ہونے کے باوجود ان جماعتوں کو الیکشن کے موقع پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ان جماعتوں میں شامل سیکولر اور لبرل ارکان اسمبلی‘ تو ویسے بھی جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی سے نفرت کرتے ہیں‘ میں نہیں سمجھتا کہ شیریں رحمان‘ تاج حیدر ‘ رضا ربانی اور اس قبیل کے دیگر ترقی پسند محض قیادت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے خفیہ ووٹنگ میں مولانا عبدالغفور حیدری جیسے کٹر مذہبی شخص کے خانے میں مہر لگا کر ضمیر کے بحران کا شکار ہونا پسند کریں گے۔سو مولانا عبدالغفور حیدری کی شکست نوشتہ دیوار تھی جس کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر عائد کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی ہار کے اسباب بھی واضح ہیں‘ بظاہر تو گیلانی صاحب کے فرزند ارجمند علی حیدر گیلانی نے پی ٹی آئی کے ارکان کو ووٹ ضائع کرنے کا جو ریفریشر کورس کرایا‘ اس سے استفادہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے ارکان نے بھی کیا۔ پی ٹی آئی ارکان تو آٹھ نو دن میں وہ سبق بھول گئے مگر گیلانی صاحب کے اپنے حامیوں اور اتحادیوں کو یاد رہا اور وہ اپنے بیلٹ پیپرز کو خراب کر گئے ‘بتانا شاید یہ مطلوب تھا کہ چاہ کن را چاہ درپیش (کنواں کھودنے والا عموماً خود ہی اس میں گرتا ہے) لیکن باخبر احباب ایک اور کہانی بھی بیان کرتے ہیں۔ پولنگ سے پہلے گیلانی صاحب کے دوسرے فرزند قاسم گیلانی‘ سعید غنی سے مل کر مشکوک ارکان اسمبلی کو تاکید کرتے دیکھے گئے کہ وہ مہر گیلانی صاحب کے نام پر لگائیں ۔یہ دراصل ارکان اسمبلی کے ووٹ چیک کرنے کا طریقہ تھا۔ اسد جونیجو اور کامران مائیکل اور دلاور خان کے نام میرے علم میں آئے ہیں‘ جنہیں خالی خانے کے بجائے گیلانی صاحب کے نام پر مہر لگانے کی تاکید ہوئی مگر یہ بیلٹ پیپرز مسترد ہوگئے ۔یہ مشکوک سینیٹرز کو چیک کرنے کا منصوبہ تھا یا گیلانی صاحب کے ووٹ خراب کر کے انہیں شکست سے دوچار کرنے کی دانستہ سعی‘ راوی اس بارے میں کچھ بتانے سے فی الحال سے قاصر ہے‘ معاملہ مشکوک یوں بھی ہے کہ امیدوار کے نام پر مہر لگانے والے ساتوں کے ساتوں سینیٹر گیلانی صاحب کے ووٹر ہیں۔ صادق سنجرانی کے حامی کسی ایک سینیٹر نے بھی یہ حرکت نہیں کی حالانکہ انہوں نے بھی الیکشن کمیشن کی وہی ہدایات پڑھیں اور مظفر حسین شاہ کی زبان سے سنیں جو پی ڈی ایم سینیٹر کو پڑھنے اور سننے کو ملیں۔ یہ بھی لطیفہ ہے ‘ بقول فاروق ایچ نائیک‘ شیریں رحمان اور سعید غنی وغیرہ اگر گیلانی کے نام پر مہر لگانے والوں نے کوئی غلطی نہیں کی تو پھر اس قانونی طریقہ کار کو عبدالغفور حیدری کو ووٹ دیتے ہوئے کیوں ترک کر دیا گیا؟کم از کم ایک ڈیڑھ درجن ارکان فاروق نائیک اور اپوزیشن کے نقطہ نظر کو درست ثابت کرنے کے لئے ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر بھی اُمیدوار کے نام پر مہر لگاتے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم جتنا بھی شور مچائے‘ میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور دیگر اپنی ناکامی اور اپنے ارکان کی بے وفائی کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈالیں‘ یوسف رضا گیلانی اور عبدالغفور حیدری اپنے ہی دوستوں‘ اتحادیوں اور بے وفائوں کی طوطا چشمی اور مصلحت کیشی کا شکار ہوئے ۔پی ڈی ایم میں روز اوّل سے سوچ کے دو دھارے ایک دوسرے کے متوازی چل رہے ہیں‘ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن اسمبلیوں اور نظام کی بساط لپیٹ کر نئے انتخابات یا ننگی مداخلت کے حق میں ہیں‘ جبکہ آصف علی زرداری ‘ اسفند یار ولی وغیرہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنے کے علمبردار‘3مارچ کو گیلانی کی سینٹ انتخاب میں کامیابی سے زرداری کا بیانیہ مضبوط ہوا اور میاں نواز شریف کو صاف نظر آنے لگا کہ اگر یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوئے تو لانگ مارچ‘ دھرنے ‘استعفوںکی سیاست تاریک راہوں کی نذر ہو گی‘ آٹھ ووٹ ضائع کرکے گیلانی کی شکست کا اہتمام کیا گیا جبکہ یہی ووٹ مرزا آفریدی کو دلا کر مولانا کے غصّے اور جذبہ انتقام کو بھڑکایا گیا‘ چیئرمین سینٹ کے الیکشن سے ایک روز قبل میاں نواز شریف نے فوجی قیادت کو ویڈیو بیان میں جو دھمکیاں دیں وہ ان کے اندرونی اضطراب کا اظہار تھا‘ اگر مسلم لیگ ن کی قیادت کا یہ موقف تسلیم کر لیا جائے کہ سارا کیا دھرا اسٹیبلشمنٹ کا ہے تو پھر انہیں اپنے گریباں میں جھانکنے اور اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ رائیگانی کا یہ سفر بالآخر کہاں ختم ہو گا۔3مارچ کو گیلانی کی جیت پر اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا پروپیگنڈا اور 12مارچ کو شکست پر مداخلت کا شور تھوکا چاٹنے کے مترادف نہیں؟ مسلم لیگی قیادت آخر انتقام اور تصادم کی موجودہ روش سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر ایم این اے میاں جاوید لطیف کی گفتگو سن کر تعجب سے زیادہ افسوس ہوا۔ موصوف نے فرمایا کہ اگر مریم نواز کے ساتھ کچھ برا ہوا تو ہم ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ نہیں لگائیں گے۔ گویا قوم اور ریاستی اداروں کو دھمکی دی جا رہی ہے کہ ہم جی ایم سید کی طرح ’’پاکستان نہ کھپے‘‘ کی گردان کے لئے بے تاب ہیں۔ یہی تو آصف علی زرداری اور دیگر رہنما ریاستی اداروں کو باور کرا رہے ہیں کہ شریف خاندان اور ان کے حواریوں کے لئے پاکستان کا وجود‘ استحکام اور مفاد ثانوی چیزہے‘ اگر یہ ان کے سیاسی خاندانی اور ذاتی مفادات سے متصادم ہوں تو انہیں شیخ مجیب الرحمن‘الطاف حسین اور جی ایم سید بنتے دیر نہیں لگے گی۔ ہوشیار ‘ خبردار۔