زندگی کی ناہموار پگڈنڈی پر سفر کرتے ہوئے ہر مسافر کے کاندھے پر ایک گٹھڑی دھری ہے۔ اس گٹھڑی میں ایک کہانی رکھی ہے۔ ہر کہانی کے اپنے اپنے کلائمکس اور اینٹی کلائمکس ہیں۔ ہر کہانی کا عنوان جدا جدا ہے لیکن ہر کہانی کا خلاصہ ایک ہے۔ دکھ‘ رنج‘ نارسائی‘ رائیگانی اور مسلسل تنہائی! مسافر کاندھے پر گٹھڑی اٹھائے محو سفر‘ چلتا جاتا جہاں تک عدم کا کنارہ آئے۔ اور اس راستے پر اپنے خوابوں اور عذابوں کو بوجھ اسے خود ڈھونا پڑتاہے۔ بظاہر ہر شخص ایک خوشی کی تلاش میں ہے مگر خوشی ایک سراب بنتی جاتی ہے۔ خوشی ہاتھ ہی آئے تو پانی کے بلبلے سے زیادہ اس کی پائیداری نہیں۔ ہاں مگر غموں کے موسم دل کے پتھر پر لکیر ہو جاتے ہیں۔ رائیگانی لہو میں سفر کرتے وجود کا حصہ بن جاتی ہے۔ زندگی میں خوشی کی تلاش بے معنی چیز ہے۔ زندگی کھردری اور ناہموار ہے۔ ملائم اور مہربان ہرگز نہیں‘ نامہربان ہے۔ آزماتی ہے اور اس آزمائش کے ہزار ہا رنگ ہیں۔ ہر شخص زندگی کی کسی نہ کسی آزمائش سے دوچار ہے۔ یا پھر دوچار ہونیوالا ہے۔ کتاب اللہ میں لکھا ہے’’اور تم ضرور آزمائے جائو گے۔میں نے پڑھا اور کانپ کے رہ گئی۔ قرآن پاک کی کئی آیات ایسی ہیں جس میں آزمائش سے عافیت کی دعا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آخری آیات کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ’’یا رب ہم پر اتنا بوجھ نہ ڈالنا جتنا ہم سہار نہ سکیں‘‘ اردگرد نگاہ دوڑائیں تو حسرتوں‘ تشنہ آرزوئوں‘ کی ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ بس۔ دکھ کے اتنے چہرے بھی ہو سکتے ہیں۔ میں تحیر میں ڈوب جاتی ہوں۔ کہیں غربت اور معاشی ناہمواریاں قیامت ڈھاتی ہیں تو کہیں رویوں کے تازیانے زندگی کو ادھ موا کیے دیتے ہیں۔ کوئی نصیبوں جلی ایسی ہے کہ پیا کے من کو بھاتی ہی نہیں۔ دریا کنارے پیاسی کھڑی توجہ کی طالب ہے۔ خود سرتاپا محبت ہے۔ انتظار کی دہلیز پر ایک پائوں پر کھڑی رہتی ہے اور جس کے لئے یہ ساری ریاضت وہ شب و روز کرتی ہے۔ وہ کسی کی نگاہ میں زندگی تلاش کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک زندگی ایسی بے نصیب۔ کہ بچپنے میں کھیلنے کو کھلونوں سے زیادہ جھڑکیاں ملیں۔ پہلے ماں رخصت ہوئی پھر باپ بھی عدم کی راہ کو چلا گیا ایک چھوٹی معذور بہن کے ساتھ بخیل دلوں والے ددھیال کے ظلم سہتی ہے۔ گزرتا وقت بچپن کو پیچھے چھوڑ آیا اب نوجوانی کی کاسنی دہلیز ہے۔ مگر آنکھوں میں دھتکارے ہوئے ‘ کرچی کرچی خوابوں کا ڈھیر۔ یتیم اور مسکین بچیاں ۔ دوسری طرف بخیل دلوں والے چاچے تائے۔ دعا کاکو کوئی ابجد ان دلوں پر لگے کفر کے تالے نہیں کھولتا۔ ایک دکھیاری غریب ماں‘ جوانی میں طلاق کا گھائو سہہ کر اکلوتے بیٹے کے ساتھ بھری جوانی گزار دیتی ہے۔ بیٹے کو خوشیوں کے ہنڈولے میں کھیلنے کی خواہش کرنے والی ماں اب دو سال سے اس کے مرنے کا غم منا رہی ہے۔ اکلوتا بیٹا۔ تین ننھے بچوں اور ایک جوان بیوہ کو چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا اور اب پل پل اپنے آپ میں گھلی‘ یہ روگی ماں گھر گھر کام کر کے یتیموں کا پیٹ پالتی ہے۔ دل میں ہجر کا ایسا گھائو ہے کہ اندر ہی اندر گھلتی اور لہو روتی ہے۔ ایک اور ماں ہے۔ دکھیاری ماں 10سال جس نے ماں بننے کا انتظار کیا اور اپنی پیاسی مامتا کو دعائوں کی تسلیاں دے کر بہلاتی رہی۔ پھر دعا اس بارگاہ میں قبول ہوئی۔ ایک ننھی گڑیا اس کی گود میں آ کر اس کو مکمل کرتی ہے۔ اس کی مامتا کی تشفی کرتی ہے۔ گھر میں خوشیوں کے نقارے بج اٹھے۔ زندگی جھوم اٹھی۔ ہمہ وقت وہ رس کے اس معجزے پر شکر کے آنسو بہاتی۔ لیکن پھر تقدیر نے ایسا جان لیوا کیا کہ اس کی ننھی گڑیا بیمار ہوئی چل بسی۔ بن کھلے پھول مر جھا گیا۔ بہاریں واپس لوٹ گئیں۔ اب غم کا ایک طویل صحرا ہے۔ ننھے وجود کو پکارتی اور تلاشتی ہوئی پیاسی مامتا‘ زندگی کا سفر اب ایک جان لیوا خالی پن سے عبارت ہے! ایک اور کم نصیب گھرانہ ہے۔ جو رنج کی زمین اورغم کے بے کراں آسمان تلے اپنے شب و روز کرتا۔ روز جیتا روز مرتا ہے۔ کہاں چار بچوں سے بھرا ہوا گھر تھا۔ شرارتیں ‘ چہلیں پہلیں۔ چار بچوں کے ہمہ وقت کاموں میں مصروف ماں کو ذرا فرصت نہ ملی کہ دو گھڑی کو آرام کرے۔ پھر ایک ہولناک حادثہ زندگی کا عنوان بدل دیتا ہے۔ چار بچے۔ چار قبریں بھر کر خاموش سو جاتے ہیں۔ دکھی باپ آج بھی مرنے والے بچوں کی سالگرائیں مناتا ہے۔یہ سب کہانیاں انفرادی دکھوں کی ہیں اور میرے آس پاس کے لوگوں کی۔ ورنہ یہاں تو زندگی کے سفر کا عنوان ہی نارسائی ہے۔ کس کس کی کہانی لکھیں‘ ہم اخبار والے تو یوں بھی عادی ہوتے جاتے ہیں ایسی کہانیوں کے۔ کسی ماںنے غربت کے باعث خودکشی کر لی۔ کوئی ماں اپنے بچوں کو بھوک کے ہاتھوں زہر دے کر مار دیتی ہے تو کوئی ساری عمر اولاد کو ترستی رہتی ہے۔ کہیں زندگی آنکھیں کھلنے سے پہلے کچرے کے ڈھیر پر پڑی ہوتی ہے۔ کبھی اے پی ایس مائوں پر قیامت ڈھاتا ہے۔ کبھی کوئی بیٹی گھر کا معاشی بوجھ سہتے سہتے زندگی ہار جاتی ہے۔ ٹیچر اسماء کی کہانی ابھی سوشل میڈیا کے صارفین کی توجہ کھینچتی ہے۔ ایسی کتنی ہی اسمائیں زندگی کا بوجھ ڈھوتی خود کسی روزمر جاتی ہیں۔ زندگی کھردری اور ناہموار ہے۔ ملائم اور مہربان ہرگز نہیں۔ بابا گرو نانک نے ایک ہی فقرے میں زندگی کا فلسفہ سمو دیا تھا۔ نانک دکھیا سب سنسار۔! زندگی کی دکان پر ہر شخص اپنے حصے کا دکھوں کا سودا خریدتا ہے اور اپنا بوجھ اسے ڈھونا پڑتا ہے۔ ہر چہرے پر دکھ کی ایک کہانی تحریر ہے اور اس ہر کہانی کے اپنے اپنے کلائمکس اور اینٹی کلائمکس ہیں۔!شہزاد نیر کا کیا اچھا شہر ہے: زندگی تونے دکاں کھول کے لکھ رکھا ہے اپنے حصے کا کوئی رنج اٹھائیں جائیں!