ایک دوست نے دوسرے دوست کو ایک تصویر دکھائی جس میں ایک شخص ایک شیر کی گردن پر پائوں رکھے ہوئے ہے اور ہاتھ میں اس کے بندوق ہے۔ شیر زندہ ہے مگر ایک طرف سر کو لٹھائے ہوئے بے بسی کا نمونہ نظر آ رہا ہے۔ دوست نے اپنے دوست سے کہا کہ دیکھو …شیر کی عاجزی اور بے بسی اور شکاری کی بہادری کہ شیر کو کیسے نڈھال کر دیا ہے۔ دوسرے دوست نے کہا’’کاش یہ تصویر شیر نے بنائی ہوتی‘‘ میرا خیال ہے کہ اس جواب سے سب کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ ایک سوال شاید ذہن میں آئے کہ کیا شیر بھی تصویر بنا سکتا ہے۔ تاہم تمثیل کو تو ہم سب سمجھتے ہیں۔ اکثر نے جارج ارویل کا ناولAnimal farm بھی پڑھ رکھا ہو گا۔ ایک ناول میں نے احمد عقیل کا بھی پڑھا تھا’’دنیا کا آخری آدمی‘‘ وہ دلچسپ تھا کہ ایٹمی جنگ کے بعد صرف ایک آدمی بچتا ہے اور وہ جانورں کے ہاتھ آ جاتا ہے وہ اسے آہنی پنجرے میں ڈال کر تمام جانوروں کو دکھانے کے لیے ایک میلے کا اہتمام کرتے ہیں اور ایک سردار جانور سب کو بریفنگ دیتا ہے کہ یہ وہ مخلوق ہے جس نے زمین پر بہت ظلم کیا وغیرہ وغیرہ۔ مندرجہ بالا تمہید کو آپ حاشیہ آرائی ہی سمجھیں۔ اصل بات میں کچھ اور کرنا چاہتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر ایسی دلچسپ باتیں آتی رہتی ہیں کہ انسان محظوظ ہوتا ہے لیکن درمیان میں نہایت کریہہ بدبودار پوسٹیں بھی لگی ہوتی ہیں جس میں خواتین‘ علماء اور ایسے ہی دوسرے معتبر لوگوں پر کیچڑ ہی نہیں اچھالا جاتا گندی گالیاں بھی دی جاتی ہیں اور یقین جانیے کہ اس سے سب سے پہلے تو پوسٹ لگانے والے کا تعارف بنفس نفیس ہو جاتا ہے۔ میں اس خاندان کے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا کہ ہو سکتا ہے اس نے گھر میں تربیت پائی ہی ہو اور اس کے گھر والے بھی اس سے تنگ ہوں۔مولانا حمید احمد خاں نے بہت خوبصورت بات کی کہ یہ جان کر تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہیں۔ مثال میں انہوں نے کہا کہ ہمارے سوالات اس قسم کے ہیں کہ کلثوم نواز کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی۔ اسے کیسے دفن کیا گیا۔ اس کے بچوں نے کیوں آنا گوارا نہیں کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان کا کہنے کا مقصد تھا کہ ہمارے پاس کوئی اور بات کرنے کو ہے ہی نہیں۔ ہم اصل میں وقت کٹی کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اپنے فارغ وقت کا کوئی استعمال ہے ہی نہیں۔ میں سوچنے لگا کہ انہیں ابھی سوشل میڈیا کا معلوم نہیں جہاں مجاہدان ملت صبح سے شام تک ایسی ایسی پوسٹیں لگاتے ہیں کہ سنجیدہ طبع آدمی سر پکڑ لیتا ہے۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے سامنے کوئی مقصد ہے ہی نہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے پی ٹی آئی والے بیگم کلثوم نواز کی تدفین کے بعد بھی کلثوم نواز کے بارے میں فضول پوسٹیں لگا رہے ہیں او دوسری طرف ن لیگ والے بھی کم نہیں وہ ریحام خاں اور پنکی کو بھی ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ ریحام کی بات تو میں نہیں کروں گا کہ وہ اپنی خود بھی عزت نہیں کرتی مگر عمران خاں کی حالیہ بیوی انتہائی برگزیدہ اور باپردہ خاتون ہے۔ پنکی اور کلثوم نواز دونوں باکردار خواتین ہیں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ جب ہم پنکی کے خلاف پوسٹ لگائیں گے تو دراصل میں ہم کلثوم نواز کے خلاف لگائیں گے کہ دوسری طرف سے جواب آں غزل کے ذمہ دار اس طرف والے ہوتے ہیں۔ آپ کسی کے بارے میں اچھی بات کریں گے تو جواب بھی اچھا آئے گا۔ ایک بات توجہ طلب ہے کہ کچھ لوگ فتنے ہیں ‘ان کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوتا وہ ابتری پھیلاتے ہیں نفرتیں ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ اختلاف ضرور ہونا چاہیے مگر اس میں صحت مند تنقید ہو‘ تنقیص نہ ہو۔ مثلاً ابھی ایک واقعہ سامنے آیا کہ پنکی کی برقعہ میں دکھا کر تضحیک کی گئی تو درپردہ یہ برقعہ پر اٹیک کیا گیا۔ لوگ اس پر بہت مشتعل نظر آ رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہم جا کدھر رہے ہیں۔ اگر مولانا طارق جمیل صاحب بنی گالہ جا کر ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں تو ہم ان کی بلائیں لیتے ہیں اور اگر وہ کلثوم نواز کا جنازہ پڑھاتے ہیں تو سارے مفتیان انصاف ان کو کہتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم کچھ نفسیاتی کیس ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسی چیزیں سامنے آ رہی ہیں کہ نہ رونے کو دل چاہتا ہے اور نہ ہنسنے کا یارا۔ ابھی ایک چینل دکھا رہا تھا کہ مسلم ٹائون پولیس نے ایک نو ماہ کا مجرم پکڑاہے جس نے سوئی گیس ٹیم پر حملہ کیا تھا۔ ملزم کا والد اس کو گود میں اٹھا کر عدالت حاضر ہو گیا اور مزے کی بات یہ کہ جج نے اس نو ماہ کے بچے سے باقاعدہ انگوٹھا لگا کر کارروائی مکمل کی اور بچے کو عبوری ضمانت پر رہا کر دیا۔ یہ سب کچھ مضحکہ خیز سہی مگر میں سوچنے لگا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری مستعد اور فرض شناس پولیس نے کہیں اس نو ماہ کے بچے کو پولیس مقابلے میں مار نہیں دیا۔ واقعتاً ہم کس رخ پر سوچتے ہیں ابھی ہمارے ایک بہت ہی پیارے صحافی اور کالم نگار اپنی فخریہ تحقیق سامنے لائے کہ خان کا کتا بھی ان کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سفر کرتا ہے۔ منیر نیازی صاحب نے ایک مرتبہ غصے میں کہا ’’دیکھ یار! حکومت نے ہمیں درجہ دوم اور گانے والوں کو درجہ اول میں بٹھایا‘ مزید کہ اس کے ساز بھی درجہ اول میں رکھے گئے۔ خیرجواب میں پی ٹی آئی کے چہیتوں کو تو بہانہ چاہیے۔ مگرمیں پی ٹی آئی کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ سوشل میڈیا پر سبز پرچم لہرا دیں اور وہ مثبت کاموں کی طرف توجہ دیں۔ وہ اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ مثلاً ابھی میں دیکھ رہا تھا کہ ایل ڈی اے کی ڈائریکٹر جنرل آمنہ عمران ون ونڈو پالیسی کے تحت سائلوں کی درخواستیں نمٹا رہی ہیں‘ ان کے اعتراضات و شکایات سن رہی ہیں اور فوری فیصلہ کر رہی ہیں لوگ ایسی باتوں کو سراہتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام کے صبر نہ آزمائیں۔ اپنے صدر صاحب کو سمجھائیں کہ وہ 27گاڑیوں کا قافلہ لے کر نہ نکلیں اور پی ٹی آئی کے ہمدردوں کو اذیت نہ پہنچائیں۔ عارف علوی کی ساری نیک نامی ایک دم زیرو ہو گئی۔ اے کاش حکمران عزت و ذلت میں فرق کر سکیں۔ خاں صاحب! کہیں آپ کا انصاف وہی ثابت نہ ہو جو animaefarmنے کہا تھا۔ جہاں کہا گیا تھا all animals are eqval but some are more eqval. بہرحال آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔ اپنے ہونہار نوجوانوں سے درخواست ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ مصروفیت ڈھونڈیں۔ وہی جو کہتے ہیں کہ اب بے کا رونا ہنجار کچھ نہ کچھ کیا کرو۔اپنی اس مہارت کو اچھی جگہ استعمال کریں۔ بزلہ سنجی شگفتگی اور مذاق کی حد تک تو اچھا لگتا ہے مگر ایک دوسرے کی تضحیک تنقیص اور تردید صائب نہیں۔ یہ بے نتیجہ رہے گا نفرتیں اپنے نشانات اندر تک لے جائیں گی۔ ہم سب ایک گھر میں ہیں اور باہر والے ہماری لڑائی سے خط اٹھا رہے ہیں۔ اگر ہم باز نہ آئے تو وہ ہمارے ہاتھ میں پتھر اور اینٹیں بھی تھما دیں گے۔ راجندر بیدی نے کیا اچھا افسانہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ اگر ایسا ہو جائے کیا بات اور نہیں تو دکھ بانٹ ہی لیے جائیں۔