وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بے گھر افراد کے لئے رہائشی سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹیں دور کرنے کے لئے متعدد خوش آئند اعلانات فرمائے۔ انہوں نے کہا کہ کچی آبادی والوں کو ان کا ذاتی گھر دیا جائے گا۔ جو لوگ گھر سے محروم ہیں ان کے لئے بینکوں سے قرض لے کر گھر بنانے کی سہولت ممکن بنائی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے ضروری قانون سازی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پاکستان میں 6کروڑ شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ صرف یہ چھ کروڑ ہی نہیں بلکہ باقی آبادی کا قابل ذکر حصہ بھی اپنے گھر‘ چار دیواری اور چھت سے محروم ہے۔ بے گھری پوری دنیا میں ایک مسئلہ ہے خصوصاً جن ریاستوں میں زمین کی قلت اورآبادی زیادہ ہو وہاں گھر بنانے کے لئے اراضی کا حصول مشکل ہو جاتا ہے پاکستان میں گو شرح آبادی میں اضافہ خطے کے تمام ممالک کی نسبت زیادہ ہو چکا ہے تاہم حالات اس قدر خراب نہیں کہ تمام شہریوں کو گھر فراہم نہ کیا جا سکے۔ ملک کی ساٹھ فیصد آبادی زراعت پیشہ ہے۔ پچاس فیصد آبادی اب بھی دیہات میں رہتی ہے۔ دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد نے گزشتہ تیس سال میں بڑے شہروں کا رخ کیا۔ اس نقل مکانی کی وجہ سے شہروں میں رہائشی مکانات کی قلت ہوئی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو 1کروڑ گھروں کی قلت کا سامنا ہے ۔عالمی بنک کے مطابق پاکستان میں ہائوس فنانس جی ڈی پی کا صرف 00.5فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش میں یہ شرح 3فیصد اور بھارت میں 7.7فیصد ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں ہر سال 7لاکھ گھروں کی طلب بڑھ رہی ہے۔ طلب میں اضافے نے مکانوں اور زمین کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔ سابق حکومتوں نے اس اہم مسئلے کو حل کرنے کی خاطر کوئی کردار ادا نہ کیا۔ سرکاری ادارے اور حکومتیں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ حکومتوں کی اس بے حسی کا فائدہ نجی شعبے نے اٹھایا اور تیزی سے نجی ہائوسنگ سوسائٹیاں تعمیر ہونے لگیں۔ حکومت نے ایک بار پھر غفلت دکھائی، ہائوسنگ سوسائٹیوں کے لئے زرخیز اور کارآمد زمینوں پر کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کئے جاتے رہے۔ کسی حکومت کو یہ خیال نہ آیا کہ وہ زرخیز زمینوں کی بجائے ہائوسنگ سکیموں کو کلر زدہ اور ناقابل کاشت زمینوں کو استعمال کرنے کا قانون بنائے۔ آج تمام بڑے شہروں کے نواح میں سرسبز کھیت ہائوسنگ سکیموں میں بدل چکے ہیں جہاں فی مرلہ نرخ اس قدر زیادہ ہیں کہ اوسط آمدن والا شہری اپنا گھر بنانے کی ہمت نہیں کر پاتا۔ سابق حکومتوں نے نت نئی سکیموں کو عوام کی حالت بدلنے کا ذریعہ بتایا۔ ستر کی دہائی میں‘ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ یہ کسی شہری کی بنیادی ضروریات ہیں جن کا مطالبہ وہ ریاست سے کر سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی چار بار اقتدار میں آ چکی ہے۔ سندھ میں پچھلے دس سال سے مسلسل ان کی حکومت ہے لیکن بے گھروں کو چھت مہیا کرنے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ مسلم لیگ ن نے ہائوسنگ کے معاملے کو اپنے ان حامیوں پر چھوڑ دیا جو رئیل اسٹیٹ اور ہائوسنگ کے کاروبارسے وابستہ تھے۔ سیاستدانوں کی بڑی تعداد رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں اس وجہ سے آ گئی کہ قانونی و غیر قانونی معاملات کو حسب مرضی طے کرنے کے لئے ان کے پاس حکومتی طاقت موجود تھی۔ میاں نواز شریف کی پہلی‘ دوسری اور تیسری حکومت میں ٹیکسیوں کے لئے قرضے دیے گئے مگر بے گھروں کے دکھ کم کرنے کے لئے کوئی قابل ذکر کوشش نظر نہیں آئی۔ لاہورجیسے شہر میں اگر کچھ فلیٹس بنائے گئے تو وہ سیاسی حمایت کے نام پر کام آ گئے۔ اس وقت بینکوں کی حالت یہ ہے کہ وہ خالصتاًکمرشل بنیادوں پر کام کررہے ہیں۔ حکومت نے انٹرسٹ ریٹ10.25فیصد رکھا ہے۔ بینک قرض کے خواہش مندوں کو دیگر کھاتوں میں اتنی رقم ڈال دیتے ہیں کہ قرض خواہ کو 24فیصد کے قریب اضافی رقم سالانہ ادا کرنا پڑتی ہے یہاں تک کہ ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن ایسا خالصتاً حکومتی ادارہ بھی 12فیصد فلیٹ ریٹ پر قرضہ فراہم کر رہا ہے۔ جو بلا شبہ نجی مالیاتی اداروں سے قدرے کم ہے مگر اس کے باوجود مڈل کلاس کے لئے ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے قرضہ لے کر گھر بنانا ممکن نہیں۔ اگر کوئی ضرورت مند گھر بنانے کے لئے بینک سے قرض لے تو زندگی میں یہ رقم چکانا مشکل ہو جاتا ہے۔ سابق ادوار میں بینک ییلو کیب اور روزگار سکیموں کے لئے رعائتی شرح منافع پر قرض دیتے رہے ہیں۔ حکومت اگر نجی بنکوں سے بات کرے اور انہیں رضا کارانہ بنیادوں پر گھروں کے لئے مارک اپ کی شرح چار یا پانچ فیصد کے قریب رکھنے پر قائل کر لے تو اس سے سیمنٹ‘ لوہے‘ اینٹ اور دوسرے تعمیراتی شعبوں میں ترقی آ سکتی ہے۔بے گھروں کے لئے رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لئے ملک میں متعدد ادارے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی‘ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن‘ سرکاری ملازمین کے لئے رہائشی سہولیات کا ادارہ اور اب نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبہ۔ اتنے بہت سارے ادارے ایک ہی کام کر رہے ہیں۔ ان کے درمیان نہ کوئی ہم آہنگی ہے نہ ان کا ڈھانچہ عام شہری کے لئے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کوئی موثر ہائوسنگ پالیسی آج تک تشکیل نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ سے زمینوں کے استعمال‘ بنکوں سے گھر کے لئے قرضوں کے اجرا‘ ٹائون پلاننگ اور رہائشی سہولیات کی فراہمی میں حکومت کا کردار جیسے معاملات کی منصوبہ بندی نہیں ہو سکی۔ وزیر اعظم محروم طبقات کے لئے اپنے دل میں خاص درد محسوس کرتے ہیں۔ ان کے اس جذبے کی قدر کی جانی چاہیے جس کے ذریعے وہ کسی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں وہ اتنے سارے اداروں پر ضائع ہونے والے وسائل کو روکیںاور ان اداروں کو نئی ہائوسنگ پالیسی بنانے کا کہیں۔ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں قانون سازی شہریوں کے لئے آسانی کا باعث ہو سکتی ہے۔