شہباز شریف کی زیر صدارت مسلم لیگ ن کے ہونے والے اجلاس میں میاں نواز شریف کی خواہش کے مطابق حکومت ہٹانے کی تحریک پر رضا مندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ قبل ازیں شہباز شریف اور ان کے حامی ن لیگی رہنما تحریک اور دھرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ ن کے اس اعلان پر اظہار مسرت کیا اور فرمایا کہ تحریک روکنے کے لئے فوج نے ان سے رابطہ کیا تو ان کا رویہ منفی نہیں ہو گا تاہم انہیں امید ہے کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو مستعفی ہونا پڑے گا۔ اپوزیشن کی اہم جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران حکومت کو سلیکٹڈ ہونے کا طعنہ دیا اور عوام کو تحریک انصاف کی جانب سے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ یاد کرواتے ہوئے سندھ کے حقوق سے دستبردار نہ ہونے کا نعرہ لگوایا۔ سن دو ہزار چودہ کے یہی ایام تھے جب تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ تسلیم نہ کرنے پر (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنا دیا۔ اس دھرنے سے قبل اتمام حجت کی خاطر الیکشن کمشن‘ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے پلیٹ فارموں سے رجوع کیا گیا۔ پورا نظام ایک مخصوص سوچ کے شکنجے میں تھا اس لئے تحریک انصاف کی شکایات کے ازالے کا تسلی بخش انتظام دیکھنے کو نہ ملا۔ اس صورت حال میں تحریک انصاف نے دھرنا دیا تو حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں نے جمہوریت‘ سیاسی اقدار اور پارلیمنٹ کی بالا دستی پر نہایت شاندار تقاریر فرمائیں۔ خواجہ آصف‘ خورشید شاہ‘ مولانا فضل الرحمن‘ محمود خان اچکزئی‘ اسفند یار ولی اور اعتزاز احسن کی تقاریر کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کو ملفوف گالیاں‘ طعنے اور کوسنے دیے گئے۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں کسی سیاسی جماعت کے لئے یہ امر قطعی غیر جمہوری ہو گا کہ وہ سیاسی مطالبات کو پارلیمنٹ سے باہر طے کرنے پر ضد کرے۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف عموماً قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے غیر حاضر رہا کرتے مگر دھرنے کے دنوں میں وہ ہر اجلاس میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرتے اور عمران خان کو برا بھلا کہنے پر زیر لب گہری مسکراہٹ دبائے نظر آتے۔ سیاسی عمل کا سبق آموز پہلو یہ ہے کہ سیاستدانوں کا شعور ترقی نہ کر سکے تو ایک جیسے واقعات اور صورت حال بار بار سامنے آتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) جمعیت علمائے اسلام‘ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی‘ عوامی پارٹی اور ن لیگ کی دیگر اتحادی جماعتیں آج اپنی سابق سوچ کے برعکس عمل پر بضد ہیں۔ پیپلز پارٹی اگرچہ کھل کر مولانا فضل الرحمن کے ساتھ چلنے کو آمادہ نہیں مگر مولانا کی تحریک جان پکڑ گئی تو بلاول بھٹو زرداری بھی مذہبی کارڈ کے استعمال سے پرہیزی پالیسی ترک کر کے تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں۔ سردست مسلم لیگ (ن) کے اعلان نے مایوسی کے شکار مولانا فضل الرحمن میں نئی توانائی پیدا کر دی ہے اور انہیں عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کا اپنا خواب سچ ثابت ہوتا نظر آنے لگا ہے۔سیاسی حلقوں میں بعض خطوط کا چرچا ہے۔ نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر اور لندن میں مقیم فرزند مولانا فضل الرحمن سے رابطے میں ہیں۔ دھرنے یا تحریک کے بھاری اخراجات کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ تحریک پاکستان سے محبت کرنے والوں کی ہے۔ ایسا کہنے والے اس بات کا جواب ضرور دیں کہ ملک کے لئے جان قربان کرنے والے لوگوں کے خلاف جو نعرے لگائے جا رہے ہیں کیا یہ پاکستان سے محبت ہے۔ پاکستان سے محبت کے دعویداراس بات پر متفق تھے کہ پی ٹی ایم کے نعرے اور سرگرمیاں قومی مفادات کے خلاف ہیں اس لئے اس تنظیم پر پابندی عائد کر دی جائے۔ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین بھی تو یہی کچھ کہتے رہے ہیں جو مسلم لیگی کارکن اپنے گرفتار رہنمائوں کے چہرے پر مسکراہٹ اور اعتماد لانے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں یہ بھول رہی ہیں کہ عوام ایک سال پہلے ان کی عشروں سے قائم سیاسی اجارہ داری کو مسترد کر چکے ہیں۔ مہنگائی کا مسئلہ ہے لیکن حکومت نے تنازع کشمیر کے متعلق جو حکمت عملی اختیار کی ہے اسے پوری قوم کی حمایت حاصل ہے۔ چند ہفتے قبل عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس طرح عالم اسلام‘ پاکستان اورکشمیریوں کا موقف پیش کیا۔ بھارت کا سیکولرازم اور جمہوری شناخت موم بن کر حقائق کی گرمی کے سامنے پگھل رہے ہیں۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ کم ہوا ہے۔ ایک سال میں نامساعد حالات کے باوجود 10ارب ڈالر کے قرضے واپس کئے گئے ہیں۔ چین کے ساتھ سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بننے والے معاملات کی اصلاح کر دی گئی ہے۔ سی پیک اتھارٹی بن گئی ہے۔ ان حقائق کو نظر انداز کرنا اس عام پاکستانی کے لئے ممکن نہیں جو سابق حکومتوں کی کارکردگی کو 35برسوں تک بھگتتا رہا ہے۔ بغیر کسی ٹھوس اور مقبول عوامی مطالبے کے اپوزیشن کا حکومت کو ہٹانے کے لئے تحریک شروع کرنا ان سیاسی و جمہوری اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہو گی جو اپوزیشن جماعتیں اپنے دور حکومت میں بیان کرتی رہی ہیں۔ یہ تحریک اس میثاق جمہوریت کے بھی خلاف سمجھی جائے گی جو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہو ۔ اس وقت مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نواز شریف‘ ان کے بھائی شہباز شریف، دونوں کی آل اولاد، پیپلز پارٹی کی قیادت اور سینئر رہنمائوں کے خلاف بدعنوانی‘ اختیارات کے ناجائز استعمال اور بے ضابطگیوں کے مقدمات زیر سماعت اور زیر تفتیش ہیں۔ میاں نواز شریف کا حکومت ہٹانے کے لئے اپنے بھائی کو سرگرم ہونے کا سخت پیغام ظاہر کرتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں سیاست نہیں اپنے لیڈروں کو قانونی عمل سے بچانے کے لئے جمعیت علمائے اسلام کی تحریک کی حمایت کر رہی ہیں۔