جہاں پناہ نے دھمکی دی ہے کہ معیشت اوپر جائے گی۔ غیر ضروری دھمکی۔ اس لیے کہ معیشت تو پہلے ہی اوپر جا رہی ہے اور سب کے سامنے جا رہی ہے اور آج کل میں وہ دن آیا چاہتا ہے کہ پوچھنے والا پوچھے گا معیشت کہاں گئی، جواب ملے گا اوپر گئی۔الجزیرہ ٹی وی نے پاکستان کی صورت حال پر جو تبصرہ کیا ہے اس کا عنوان ’’خبر انگیز سوال‘‘ قسم کا ہے۔ عنوان ہے پاکستان کی معیشت کیوں ڈوب رہی ہے۔ مضمون میں لکھا ہے کہ حکومت سارا زور غریبوں پر ٹیکس لگانے کے لیے لگا رہی ہے لیکن نتیجہ نکلتا نظر نہیں آ رہا۔ اس فقرے سے اختلاف ہے۔ نتیجہ نکلتا کیوں نہیں نظر آ رہا ہے نتیجہ نکل رہا ہے اور نکلے ہی چلے جا رہا ہے۔ جو ہر گھر میں، ہر دفتر میں، ہر دکان میں، ہر بازار میں، بازار کے ہر چوک میں، ہر گلی میں، گلی کے ہر موڑ پر نتیجوں کے ڈھیر لگے ہیں اور الجزیرہ کہتا ہے نتیجہ نکلتا نظر نہیں آ رہا۔ ٭٭٭٭٭ مسلم لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کی گرفتاری متوقع نہیں، یقینی امر تھی۔ خود وہ بتا رہے تھے کہ میں گرفتار ہونے والا ہوں۔ ’’باز آئو ورنہ‘‘ والے پیغامات مل رہے تھے۔ پکی خبر دینے والے شیخ رشید سے لے کر محب وطن اینکرز تک سبھی کئی ماہ سے بتا رہے تھے کہ بہت گرفتاریاں ہوں گی اور رانا صاحب کا نام بھی ان میں ہے۔ حیرت البتہ یوں ہوئی کہ تمام پکی خبر دینے والوں کی پکی خبر یہ تھی کہ انہیں نیب پکڑے گا لیکن پکڑا اس ادارے نے جو منشیات کے حوالے سے بنایا گیا ہے اور جو الیکشن سے کچھ روز پہلے حنیف عباسی کو سزا دلوا کر اپنی ’’ساکھ‘‘ پر چار چاند چمکا چکا ہے۔ رانا صاحب کی گرفتاری کی ’’وجہ‘‘ بدلنے کا فیصلہ کب اور کیسے ہوا؟؟ ذرائع نے چند ہفتے پہلے خبر دی تھی کہ نیب نے بوجوہ معذرت کر لی ہے۔ تب یہ خبر قابل اعتبار نہیں لگ رہی تھی، اب اعتبار آیا۔ یہ بھی پتہ چلا تھا کہ جہاں پناہ نے ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھی احکامات دیئے تھے لیکن وہاں سے اگر مگر چوں چناں وغیرہ میں جواب ملا۔ واللہ اعلم! جہاں پناہ نے جب وہ جہاں پناہ نہیں بنے تھے کئی جہاں پناہوں کی پناہ میں تھے، جلسہ میں وعدہ کیا تھا کہ رانا ثناء تمہیں میں مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوں گا۔ ایفائے عہد ضروری تھا، پورا ہوا۔ یہ پتہ نہیں کہ مونچھوں والی بات کا جزوی عہد بھی پورا کیا گیا کہ نہیں۔ گرفتاری کی ویڈیو آئے تو پتہ چلے۔ حکومت نے کہا ہے کہ منشیات والا ادارہ جس نے رانا ثناء کو پکڑا، آزاد اور خود مختار ادارہ ہے۔ بجا فرمایا، بالکل نیب کی طرح۔ وہ بھی آزاد اور خود مختار ہے۔ دریں چہ شک۔ ٭٭٭٭٭ رانا ثناء کے لیے یہ پہلی گرفتاری نہیں ہے۔ آسمان ان کا پہلے بھی امتحان لے چکا ہے اور اس وقت بھی زور مونچھوں پر تھا۔ یہ مشرف کا دور تھا۔ آسمان نے رانا صاحب کو پکڑا اور استرے سے ان کی مونچھیں صاف کر دیں۔ آخر کار ایک دن وہ رہا ہوئے۔ آسمان کو یہ جان کر صدمہ ہوا کہ مونچھیں غائب ہونے کے بعد جوں کی توں ہیں، پہلی جیسی سرکش، نافرمان، باغی۔منشیات رکھنے کا یہ تیسرا ’’المشہور‘‘ کیس بنے گا۔ ماضی تقریباً بعید میں ایک اخبار کے ایڈیٹر کو منشیات فروشی کے الزام میں لمبی سزا سنا دی گئی۔ نشان عبرت بن گیا۔ محب الوطن اینکروں نے رات اپنے پروگراموں میں شادیانے بجائے اور آئندہ ہونے والی گرفتاریوں کی لمبی فہرست پیش کی۔ ان کی خبر اگر سچ ہے(اور سچ کیوں نہ ہو گی) تو اپوزیشن ساری کی ساری اندر ہو گی، پارلیمنٹ میں پائیدار امن قائم ہو جائے گا۔ اب دیکھیے شاہد خاقان کی گاڑی سے کوکین برآمد ہوتی ہے یا ایکسٹسی۔ راجہ ظفر الحق کے گھر سے ’’ڈوڈے‘‘ برآمد کرنا کیا مشکل ہے۔ خواجہ آصف کیا پتہ بھنگ گھولتے ہوئے رنگے ہاتھوں آلات گھوٹائی سمیت پکڑے جائیں، مراد علی شاہ کا تاڑی بنانے کا کارخانہ کس شہر سے برآمد ہو گا؟ اینکرز کی اطلاع ہے کہ پارک لین کیس میں بلاول بھٹو کی گرفتاری کا امکان ہے۔ ٭٭٭٭٭ لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت ساری ہی اپوزیشن کو جیل میں بند کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اپوزیشن کے لیے بھی ’’ایمنسٹی سکیم‘‘ آ گئی ہے۔ بنی گالے چلو ورنہ تھانے چلو کے عنوان سے یہ سکیم دراصل اپوزیشن کے ایک معتبر حصے کو چھوٹ دینے کے لیے بنی ہے۔ فاورڈ بلاک بنائیں، ہر طرح کے اندیشوں سے نجات پائیں۔ فی الوقت درجن بھر لوگ اس سکیم سے فائدہ اٹھا چکے ہیں، مزید کی امید ہے۔ حالات ہر طرح سے مثبت رخ پر جا رہے ہیں۔ معیشت کی طرح، دیکھ لینا، جمہوریت بھی اوپر جائے گی۔ ٭٭٭٭٭ تین دن پہلے چودھری نثار کا بیان آیا تھا کہ اچھی طرح جانتا ہوں، عمران خان کو حکومت کس نے دلوائی۔ راز کھول دیئے تو بہت مشکل ہو جائے گی۔ اب ایک اور محب وطن دوست کھوسہ کا ٹی وی انٹرویو چلا ہے کہ 2018ء کے انتخابات آزادانہ اور بلا مداخلت کے(یعنی سچ مچ) کے ہوتے تو آج بھی ملک پر نواز لیگ کی حکومت ہوتی۔ دوست کھوسہ الیکشن سے پہلے ہونے والے حب الوطنی ایکشن پلان کے تحت اپنے والد محترم سمیت ن لیگ سے الگ ہو گئے تھے۔ گویا یہ دونوں حضرات بھی ’’سلیکٹڈ‘‘ والے نعرے کی تال سے تال ملا رہے ہیں۔ مزید گویا ؎ اب یہ حکایت عام ہوئی ہے، سنتا جا گھبراتا جا ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ نواز شریف کو جیل میں گھر کا کھانا دینے پر پابندی کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ پہلے ان سے ملاقاتوں پر پابندی لگی، ملاقاتیں صرف گھر والوں تک محدود کر دی گئیں۔ پھر گھر والوں کی تعداد بھی کم کر کے صرف پانچ کر دی گئی، اس دوران ڈاکٹر کی ملاقات کا حق بھی واپس لے لیا گیا۔ اب جیل کا کھانا ملے گا اور جیل کا کیا، کوئی بھی محب وطن قیدی یا محب وطن جیل اہل کار کھانے میں کچھ ادھر ادھر کی شے ملا دے تو اس میں حکومت کا کیا قصور۔ چاہے تو اسے نواز شریف کی ’’مرسیانائزیشن‘‘ کا نام دے لیں چاہے تو ’’قانون کی بالادستی‘‘ کا۔