مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل سمیت ہم خیال سات اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف الیکشن کمشن کے باہر احتجاج کیا اور الیکشن کمشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا‘ اس دوران اپوزیشن جماعتوں نے ’’جعلی الیکشن نامنظور‘‘ کے نعرے لگائے اور احتجاجی ریلی نکالی۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ جمہوری معاشروں میں احتجاج ہر ایک کا حق ہے لیکن یہ حق کسی مقصد کے تحت ہو تو نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں‘ لیکن اپوزیشن جماعتوں کے حالیہ احتجاج سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ احتجاج کسی منزل کے تعین کے بغیر ہی کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ جماعتیں احتجاج سے قبل ہی ٹولیوں میں بٹ گئیں اور تین جماعتوں کے سربراہان احتجاج سے غائب رہے۔ اصولاً انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو نئی اسمبلیوں کے قیام کا انتظار کرنا چاہیے اور اپنا تمام تر احتجاج ان اسمبلیوں میں پہنچ کر ریکارڈ کرانا چاہیے۔ یہی جمہوری معاشروں کا رویہ ہے۔ اگر یہ جماعتیں باورکرتی ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو یقینا انہیں ایسا کہنے کا حق ہے لیکن انہیں یہ حق اسمبلی کے فورم پر استعمال کرنا چاہیے ان کے لیے یہی سب سے مناسب جگہ ہے لہٰذا اپوزیشن رہنمائوں خصوصاً وہ رہنما جو کسی نشست سے کامیاب ہی نہیں ہو سکے ان کے لیے یہ زیبا نہیں کہ وہ نئی اسمبلیوں کے قیام سے قبل ایسی سیاسی دھماچوکڑی مچائیں جس سے جمہوریت کے قیام کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو۔ لہٰذا ہم خیال اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ محض وقتی مفاد کے حصول کی بجائے وسیع تر قومی مفاد کو پیش نظر رکھیں تاکہ ملک میں جمہوریت کی مضبوط بنیادیں رکھی جا سکیں لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ حزب مخالف کی جماعتیں اسمبلی کے فورم پر آ کر اپنی شکایات کے ازالہ کی کوشش کریں تاکہ ان کے مطالبات کو صحیح نہج ملے اور وہ کسی نتیجہ سے ہمکنار ہو سکیں۔